بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرض


سوال

علاقے میں ایک کشف نام کی کمپنی ہے جو لوگوں کو قرض دیتی ہے ، اُس کا طریقہ یہ ہے :

اگر کوئی قرضہ لیتا ہے تو کمپنی اس قرضے کے پیسوں کو 12 قسطوں میں تقسیم کرتی ہے، جو مقروض کو ہر مہینے بل کی طرح جمع کروانا ہوتی ہیں اور یہ قرض ایک سال میں مکمل ہوتا ہے، اِن 12 قسطوں کی رقم کو جمع کیا جائے تو یہ مکمل رقم 50000 بنتی ہے یعنی جو قرضہ لیا تھا وہ 40000 تھا اور 10000 اُوپر یہ اپنی فیس لیتے ہیں، کیا یہ صورت جائز ہے یا سود ہے؟ اس کمپنی سے قرضہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟

اور ایک easypaisa کمپنی ہے پیسے وغیرہ بھجنے والی، کشف کمپنی نے easypaisa والوں سے رابطہ کر رکھا ہے، اب جس دوکان والے کے پاس easypaisa کی سہولت ہے، کشف کمپنی سے قرضہ لینے والے ممبر easypaisa دوکان پر جا کر ہر مہینے اپنی قسط جمع کرواتے ہیں، دوکان دار اپنے easypaisa اکاؤنٹ سے وہ قسط جمع کرتا ہے، جس پر دوکان دار کو easypaisa کمپنی کمیشن دیتی ہے ، اگر کشف کمپنی کا قرضہ دینے والا طریقہ سود ہے تو کیا easypaisa کی دوکان والا شخص اس سود کے گناہ میں شامل ہو گا؟

نوٹ: قسط جمع کرنے والے دوکان دار کا رابطہ تعلق easypaisa کمپنی سے ہے، کشف کمپنی سے نہیں ہے اور جو کمیشن ملتا ہے وہ بھی easypaisa کمپنی دیتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا قرض کے طور پر پیسے دینا اور اس پر قسطوں کے ذریعے  زیادہ پیسے لینا سود ہے، جس کا لینا اور دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآن کریم اورآحادیث مبارکہ میں سودی معاملات کرنے والوں کے لیےسخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس لیے اس معاملے سے احتراز لازم اور ضروری ہے۔

دوکاندار کو  ایزی پیسہ کمپنی جو کمیشن دیتی ہے اگر دوکاندار کو پتا ہے کہ یہ سودی معاملے کی رقم کی ترسیل ہے تو دکاندار کے لیے یہ ترسیل  کی سہولت فراہم کرنا اور اس کے بدلے اجرت لینا شرعًا درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کل قرض جر نفعاً فهو  حرام) أی اذا کان مشروطاً."

(ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید) 

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابررضي الله عنه قال:لعن رسول الله ﷺ آکل الربا، وموکله،وکاتبه ،وشاهدیه وقال: هم سواء."

(النسخة الهندية۲۷/۲)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں