بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم سے متعلق ایک سوال


سوال

میرے  والد  کچھ  رقم ہر مہینے تحفے کے طور پر مجھے دیتے ہیں، پہلے اس رقم میں 70 فیصد قومی بچت سے آنے والا سود ہوتا تھا اور 30 فیصد والد صاحب اپنی پینشن سے دیتے تھے۔  میں سود کی اس رقم کا باقاعدہ حساب رکھتا تھا؛ تاکہ ثواب کی نیت کے بغیر اس سود والی رقم کو کہیں دے دوں، تاہم پینشن والی رقم کو خود استعمال کر لیتا تھا۔ کچھ عرصے سے والد صاحب ساری رقم مجھے پینشن سے دے رہے ہیں۔ قومی بچت کی اس رقم کو وہ جائز سمجھتے ہیں اور سود کی رقم اپنے استعمال میں لے آتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اب 100 فیصد جو رقم وہ پینشن سے دیتے ہیں میں اس کو اسی پرانے تناسب سے اپنے پاس سمجھوں اور یہی خیال کرتے ہوئے 70 فیصد رقم کو سود  ہی سمجھوں اور اس کو پہلے کی طرح علیحدہ کر دوں، تاکہ جو رقم والد کے پاس ہے جو اصل میں سود ہے وہ پہلے کی طرح پینشن والی رقم تصور ہو اور ان کے لیے وہ رقم جائز سمجھی جاۓ؟

جواب

آپ کے سوال کا غالباً مقصد  والد صاحب کو سودی رقم کے استعمال سے  بچانا ہے،  اگر سوال سے مقصود یہی ہے تو   سود والی رقم کو پنشن فرض کرلینے  کی جو  صورت آپ نے لکھی ہے وہ شرعاً غیر معتبر ہے، اس تدبیر کے بعد   بھی آپ کے والد کا اس رقم کا استعمال  سود ی رقم کے استعمال کے ہی حکم میں ہے، اس کا حل یہ ہے کہ آپ والد صاحب کو احترام اور ادب کے ساتھ سمجھائیں اور سود کی وعیدات سنائیں تا کہ اس رقم کے استعمال سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اور آپ کے والد صاحب پنشن کی حلال رقم سے جو آپ کو دیں آپ کے لیے اسی قدر حلال ہوگی۔

اگر سوال سے کچھ اور مقصود ہے تو وضاحت فرمائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں