بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سود سے متعلق حدیث اور اس کی علت کی تفصیل وتشریح


سوال

 مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ سے متعلق چند سوالات کے جواب عنایت فرمائیں: ”عن عبادة بن الصامت رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعیر بالشعیر، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل سواءً بسواء یدًا بید․․․․ الخ۔“ (مشکوٰةص:۲۴۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا، سونا، چاندی، گیہوں، َجو، کھجور، نمک، اور فرمایا کہ: جب سونا، سونے کے بدلے، چاندی، چاندی کے بدلے، گیہوں، گیہوں کے بدلے، َجو، َجو کے بدلے، کھجور، کھجور کے بدلے، نمک، نمک کے بدلے فروخت کیا جائے تو برابر ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ لے دُوسرے ہاتھ دے، کمی سود ہے۔ (مسندِ احمد ج:۲ ص:۲۳۲)

1۔کیاان احادیث میں مذکور اشیاء کے علاوہ ان کی مثل اشیاءکی بیع میں بھی یہی احکام لاگو ہوں گے؟

2۔حدیث کی عبارت " یداً بیدٍ' سے کیا مراد ہے؟ کیا ان اشیاء کا بطور قرض لین دین جائز ہے؟

3۔گھروں میں اکثر یہ صورت پیش آتی ہے کہ اشیاء مثلاً آٹا،دودھ یا چینی وغیرہ بطور قرض لی جاتی ہیں اور کچھ مدت کے بعد وہ اشیاء واپس کی جاتی ہیں،تو کیا یہ بھی سود میں شامل ہوگا؟ براہِ مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

مذکورہ حدیث سود سے متعلق اساس کی حیثیت رکھتی ہے، فقہاء نے اس حدیث میں غور کرکے سود کی حرمت کی علت کا استنباط کیا ہے، احناف کے یہاں وہ علت قدر اور جنس ہے لہذا : 

۱) جو چیزیں بھی ناپ کر یا تول کر فروخت کی جاتی ہیں، جب ان کا تبادلہ ان ہی  کی جنس کے ساتھ کیا جائے تو ضروری ہے کہ دونوں چیزیں برابر، برابر ہوں، اور یہ معاملہ دست بدست کیا جائے، اس میں اُدھار بھی ناجائز ہے اور کمی بھی ناجائز ہے۔ مثلاً: گیہوں کا تبادلہ گیہوں کے ساتھ کیا جائے تو دونوں باتیں ناجائز ہوں گی، یعنی کمی بھی ناجائز اور اُدھار بھی ناجائز اور اگر گیہوں کا تبادلہ مثلاً: جو کے ساتھ کیا جائے تو کمی وبیشی جائز، مگر اُدھار ناجائز ہے۔ اور اگر قدر اور جنس دونوں ہی نہ پائی جائیں مثلا گیہوں کا تبادلہ روپوں کے ساتھ ہو  تو ادھار بھی جائز اور کمی بیشی بھی جائز ہے۔

۲)  "یداً بیدٍ"سے مراد یہ ہے: معاملہ ہاتھ در ہاتھ ہو جس کی تفصیل پہلے جز میں آگئی ہے۔ قرض کا حکم اگلے جز میں آرہاہے۔

۳) گھروں میں عام طور پر تھوڑی مقدار میں چیزیں لی جاتی ہیں جو کیل میں نہیں آتیں؛ اس لیے سود نہیں۔ اور اگر کیل میں آبھی آجائیں تو بطور قرض لیتے ہیں، تو یہ تبادلہ نہیں قرض ہے، جتنا لیا ہے اتنا ہی بعد میں واپس کردیا جائے، یہ سود میں شامل نہیں اوراگر یہ دوعلتیں تسلیم نہ ہوں تو  پڑوس کے معاملے کی وجہ سے ازروئے استحسان اس کی اجازت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143901200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں