سودخور سے مدرسے کے لیے چندہ مانگ سکتا ہے یانہیں؟ اور اگر دے دے مدرسے کے لیے تو کیا حکم ہے؟ شرع کی رو سے راہ نمائی فرمائیں!
سود خور سے مدرسہ کے لیے چندہ مانگنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ سود کے علاوہ دوسرے حلال مال میں سے مدرسہ کو چندہ دے تو اس کا لینا اور مدرسہ میں لگانا درست ہے۔
اسی طرح اگر وہ از خود سود کے حرام مال سے جان چھڑانے کے لیے ثواب کی نیت کیے بغیر سود کا پیسہ مدرسہ کے مستحقِ زکات طلبہ پر بطورِ صدقہ صرف کرنے کے لیے دے تو اس صورت میں بھی وہ پیسہ اس سے لے کر صرف مستحقِ زکات طلبہ کو دینا جائز ہوگا، لیکن مدرسہ کی کسی دوسری مد (مثلاً تعمیرات یا اساتذہ کی تن خواہوں وغیرہ ) میں اس رقم کا لگانا جائز نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 292):
" رجل دفع إلى فقير من المال الحرام شيئاً يرجو به الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمّن المعطي كفرا جميعاً.
ونظمه في الوهبانية وفي شرحها: ينبغي أن يكون كذلك لو كان المؤمّن أجنبياً غير المعطي والقابض، وكثير من الناس عنه غافلون ومن الجهال فيه واقعون. اهـ.
قلت: الدفع إلى الفقير غير قيد، بل مثله فيما يظهر لو بنى من الحرام بعينه مسجداً ونحوه مما يرجو به التقرب؛ لأن العلة رجاء الثواب فيما فيه العقاب ولايكون ذلك إلا باعتقاد حله".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200225
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن