ایک شخص کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے تو بینک سے سود کی رقم لے کر علاج کروالیا اور جو لوٹانے کی رقم ہے اس پر سود بڑھتا ہی جا رہا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مذکور شخص کی شرعاً سود کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے؟
واضح رہے کہ سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر اب تک وصول نہ کی ہو تو وصول ہی نہ کی جائے، اور اگر وہ غیر اختیاری طور پر ملک میں آجائے یا کسی نے غفلت یا لاعلمی میں وصول کرلی ہو اور کسی عمل کے عوض میں نہ ہو تو اصل مالک کو واپس لوٹادی جائے، اگر مالک یا اس کے ورثہ تک پہنچانا ممکن نہ رہے، یا وہ رقم کسی عمل کے عوض حاصل ہوئی ہو تو پھر اس رقم کو مستحقینِ زکات پر ثواب کی نیت کے بغیر خرچ کردیا جائے؛ لہذا کسی سودی قرض کا سود اتارنے والے کو سودی رقم نہیں دی جاسکتی الًا یہ کہ وہ مستحقِ زکات ہو۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (34 / 245):
"والواجب في الكسب الخبيث تفريغ الذمة والتخلص منه برده إلى أربابه إن علموا، وإلا إلى الفقراء". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200427
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن