ایک شخص کو وہم کی بیماری ہو ، بار ایک خیال ذہن میں آتا ہو، وہ کسی کتاب میں طلاق کا لفظ پڑھ لے اور اس کے ذہن میں بار بار آئے طلاق ہو گئی ہے، وہ پریشانی میں کہے میری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے؟ یہ سوالیہ جملہ تھا یہ اس نے سوالیہ انداز میں کہا تھا، اس جملے سے نقصان ہو گا، اگرچہ طلاق کی نیت نہ تھی جب کہ یہ پریشانی کے عالم میں کہا تھا ان وساوس کا حل کیا ہے؟
اگر یہ جملہ (’’ میری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے‘‘) سوالیہ انداز میں کہا تھا تو اس جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، اس طرح کے وہم اور وساوس کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل بھی دھیان نہ دیا جائے، جتنا اس کے بارے میں سوچیں گے یہ وہم اور وسوسے اور زیادہ بڑھیں گے، اس کے ساتھ ’’اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘ اور ’’اللہم انی اعوذ بک من ھمزات الشیاطین و اعوذ بک رب ان یحضرون‘‘ کثرت سے پڑھا کریں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200066
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن