بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت موکدہ اور غیر موکدہ ایک سلام سے ادا کی جائیں یا دوسلاموں سے؟


سوال

1۔چار سنت مؤکدہ ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے بارے میں حدیث کا حوالہ بتادیں۔

2۔جمعہ اور ظہر کی چار سنتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنی چاہییں یا دوسلاموں کے ساتھ؟

3۔ غیر مؤکدہ چار رکعت سنتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنی چاہییں یا دوسلاموں کے ساتھ؟

جواب

1۔سنن ابن ماجہ  اور سنن ابی داودکی روایت میں ہے:عن أبي أيوب ، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الظهر أربعا إذا زالت الشمس ، لا يفصل بينهن بتسليم ، وقال : إن أبواب السماء تفتح إذا زالت الشمس.

ترجمہ: حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: "جب سورج ڈھل جاتاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چاررکعات نماز ایک سلام سے پڑھتے ،اور فرماتے سورج ڈھلنے کے بعد آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں"۔(سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ2/236-سنن ابی داود،باب الاربع قبل الظہیر وبعدھا1/490)

2۔جمعہ اور ظہر سے قبل چاررکعات سنتیں ایک سلام سے ہی اداکرنی چاہییں،نہ کہ دو سلاموں کے ساتھ ۔فتاویٰ شامی میں ہے:

'' ( وسن ) مؤكدا ( أربع قبل الظهر و ) أربع قبل ( الجمعة و ) أربع ( بعدها بتسليمة ) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بستليمتين وبعكسه يخرج''۔(2/12)

3۔عصر سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دورکعت پڑھنابھی منقول ہے اور چاررکعات بھی ،اس لیے دونوں طریقے درست ہیں،چاہیں توچاررکعات  ادا کی جائیں ،یافقط دورکعت پڑھی جائیں، البتہ چار رکعات ادا کرنے کی صورت میں ایک سلام سے ادا کرنا بہتر ہے ۔مشکاۃ شریف میں ہے:

''عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " رحم الله امرءا صلى قبل العصر أربعا " . رواه أحمد والترمذي''۔

دوسری روایت میں ہے:

'' وعن علي رضي الله عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر أربع ركعات يفصل بينهن بالتسليم على الملائكة المقربين ومن تبعهم من المسلمين والمؤمنين " . رواه الترمذي ''۔

وفی « الثواب الحلي من المسك الذكي» حاشية الترمذي للشيخ العلامة اشرف علي التهانوي ـرحمه الله ـ تحت قوله: يفصل بينهن بالتسليم :

« قلت: ظاهره التشهد، لا السلام، بقرينة المؤمنين، فيكون حجة للحنفية في افضلية الاربع».

تیسری روایت میں ہے:

'' وعن علي رضي الله عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر ركعتين . رواه أبو داود ''۔(مشکاۃ ،باب السنن وفضائلھا،1/259)

اورعشاء سے قبل چاررکعات پڑھنامستحب  ہیں ،یہ سنتیں بھی ایک سلام سے اداکرنابہترہے،چاررکعت کاوقت نہ ہوتودورکعت پڑھنابھی جائز ہے۔فتاویٰ شامی میں ہے:

'' ويستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء وبعدها بتسليمة ) وإن شاء ركعتين''۔(2/13باب الوتروالنوافل)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

''(عصر اور عشاءسے قبل)اگر موقع ہو توچاررکعات پڑھے اور اگر موقع نہ ہو یاکوئی عذر ہوتو دورکعت پڑھ لینابھی کافی ہے،عصر اور عشاء سے قبل چاررکعت یا دورکعت دونوں پڑھ سکتاہے۔''(5/225)

فقہاء لکھتے ہیں کہ :ظہراور جمعہ کی سنتوں کے علاوہ بقیہ سنن ونوافل میں چاررکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد درود پاک بھی پڑھ لیناچاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143812200024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں