بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت مؤکدہ اور غیر مؤ کدہ کاحکم


سوال

سنت مؤکدہ اور غیر مؤ کدہ کاحکم بیان کریں۔کیا سنت مؤکدہ کا پڑھنا فرض کی طرح لازمی ہے یا چھوڑنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟  جیسا کہ فجر سے پہلے 2 اور ظہر سے پہلے4اور بعد میں 2 ،مغرب اور عشاء کے بعد 2،2 رکعتیں سنت ہیں۔

جواب

سنت مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے،بلاکسی عذر کے سنت مؤکدہ کاترک جائز نہیں ہے جوشخص بلاکسی عذر کے سنت مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائق ملامت ہے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔[کفایت المفتی 3/319،دارالاشاعت]

البتہ فجر کی نماز کا وقت اگر تنک ہو تو فجر کے وقت میں صرف فرض نماز ادا کرلی جائے، اور اشراق کا وقت ہونے کے بعد سے لے کر اسی دن کے زوال سے پہلے  فجر کی سنتیں پڑھ لی جائیں ؛ کیوں کہ  تمام سنت نمازوں میں فجر کی سنتوں کی سب سے زیادہ تاکید احادیث مبارکہ میں آئی ہے۔

البحرالرائق میں ہے:'' سنة مؤكدة قويةقريبة من الواجبحتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه''۔[3/6]

فتاویٰ شامی میں ہے:'' ولهذا كانت السنة المؤكدةقريبة من الواجبفي لحوق الإثم كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير أي على سبيل الإصرار بلا عذر ''۔[2/12]

سنت غیر مؤکدہ کابھی اہتمام کرناچاہیے،سنت غیرموکدہ پڑھنے پر ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں۔ہرشخص ہی ثواب واجر کامحتاج ہے؛ اس لیے ان کے ترک کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔فتاوی شامی میں ہے:'' تركه لا يوجب إساءة ولا عتابا كتركسنة الزوائد، لكن فعله أفضل ''۔[1/477دارالفکر] فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں