بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت لباس


سوال

 جو لباس ہم پہنتے ہیں وہ سنت تو نہیں ہیں شلوار قمیض اسی طرح پنشییٹ بھی سنت نہیں ہے تو ہمارے صلاحاء نے سنت لباس کیوں نہیں پہنا؟

جواب

ہم رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا استعمال کردہ لباس دیکھیں تو اس میں ازار (تہبند)، چادر اور قمیص کا ذکر تو عام ملتاہے، اور شلوار کا استعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے بھی شلوار خریدنا ثابت ہے، اور بعض روایات کے مقتضیٰ  سے  آپ ﷺ سے بھی استعمال ثابت ہے، نیز آپ ﷺ نے اسے پسند فرمایا کہ اس میں ستر کا لحاظ زیادہ ہے۔ بہر حال قمیص شلوار کا استعمال سنت سے ثابت ہے، اولاً تو اس لیے کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے براہِ راست بھی ثابت ہے، ثانیاً اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے جو عمل کیا اور رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر اس سے منع نہ کیاہو، بلکہ سکوت فرماکر اس کی تائید وتصویب کی ہو تو وہ بھی حدیث سے ثابت شدہ کہلاتاہے۔ نیز ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کا بھی حکم ہے ؛ لہٰذا شلوار اور قمیص کو بھی سنت سے ثابت شدہ لباس کہا جائے گا۔

 الغرض جو شخص رسول اللہ ﷺ کا لباس اختیار کرنا چاہے تو قمیص یا چادر کے ساتھ تہبند پہننا آپ ﷺ کا معمول تھا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے  شلوار پہننا ثابت ہے، اس لیے یہ بھی سنت سے ثابت شدہ لباس ہے، کم از کم خیر القرون مشہود لہا الخیر کے صلحاء کا لباس ہے۔ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضورِ اقدس ﷺکے پاس بارش کے دنوں میں بقیعِ غرقد کے مقام پر بیٹھا تھا ، گدھے پر سوار ایک عورت گزری،جس پر بوجھ تھا، ایک نشیبی زمین پر پہنچی، جہاں گڑھا تھا، تو گر پڑی آپ ﷺنے دیکھ کر چہرہ عورت کی طرف سے پھیر لیا، لوگوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! یہ شلوار پہنے ہوئے ہے،  آپ  ﷺنے فرمایا: اے اللہ !میری امت کی ان عورتوں  کی مغفرت فرما جو شلوار پہنتی ہیں۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (5/ 122):
"وعن علي قال: «كنت قاعداً عند النبي صلى الله عليه وسلم  عند البقيع - يعني بقيع الغرقد - في يوم مطير، فمرت امرأة على حمار ومعها مكار، فمرت في وهدة من الأرض فسقطت، فأعرض عنها بوجهه، فقالوا: يا رسول الله إنها متسرولة؟ فقال: " اللهم اغفر للمتسرولات من أمتي» ".

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ ایک دن بازار گیا۔ آپﷺ ایک کپڑافروش کے پاس گئے، اس سے آپﷺ نے چار درہم میں ایک شلوار خریدی۔ بازار والوں کے پاس ایک ترازو تھا جس سے وہ سامان وغیرہ وزن کیا کرتے تھے تو نبیﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا: دیکھو! ذرا جھکتا تولا کرو۔ تو لنے والے نے کہا: یہ ایسا کلام ہے کہ میں نے کسی سے نہیں سنا۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  موجود تھے، انہوں نے کہا کہ تو کیا کہہ رہا ہے، تیرا دین اور دنیا سب برباد ہوجائے گا!  کیا تم نہیں جانتے کہ یہ تیرے پیغمبر ہیں، رسول اللہﷺ ہیں۔ اس نے ترازوکو چھوڑ دیا اور فوراً رسول اکرمﷺ کے دستِ مبارک کی طرف بوسہ دینے کے لیے جھپٹا اور آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ کو کھینچ لیا اور فرمایا کہ یہ عجمی بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ ارے! میں تو تمہاری ہی طرح کا آدمی ہوں، ہاں! تم جھکا کر تولا کرو۔ اور آپﷺ نے پاجامہ لے لیا۔  حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھا کہ میں اُٹھالوں تو نبیﷺ  نے فرمایا کہ صاحبِ سامان اس کے اُٹھانے کا زیادہ حق دار ہے،  ہاں! اگر کم زور ہو، ضعیف ہو تو مسلمان کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا (چوں کہ اللہ کے نبیﷺ تو لنگی باندھتے تھے) کیا آپﷺ پاجامہ پہنتے ہیں،  جو آپﷺ نے پاجامہ خریدا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں! رات میں بھی، دن میں بھی، سفر میں بھی حضر میں بھی؛   مجھے ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے اور شلوار سے زیادہ میں کسی چیز کو بہتر نہیں سمجھتا کہ ستر کو چھپانے والی ہو۔ 

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (5/ 121):
[باب في السراويل]
"8510 - عن أبي هريرة قال: «دخلت يوماً السوق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس إلى البزازين، فاشترى سراويل بأربعة دراهم، وكان لأهل السوق وزان يزن، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتزن وأرجح "، فقال الوزان: إن هذه لكلمة ما سمعتها من أحد، فقال أبو هريرة: فقلت له: كفى بك من الرهق والجفاء في دينك ألا تعرف نبيك؟ فطرح الميزان ووثب إلى يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد أن يقبلها، فحذف رسول الله صلى الله عليه وسلم يده منه فقال: " ما هذا؟ إنما يفعل هذا الأعاجم بملوكها ولست بملك، إنما أنا رجل منكم". فوزن وأرجح، وأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم السراويل، قال أبو هريرة: فذهبت لأحمله عنه فقال: " صاحب الشيء أحق بشيئه أن يحمله إلا أن يكون ضعيفاً فيعجز عنه فيعينه أخوه المسلم ". قال: قلت: يا رسول الله وإنك لتلبس السراويل؟ قال: " أجل في السفر والحضر، وفي الليل والنهار، فإني أمرت بالستر فلم أجد شيئاً أستر منه»."

لہذا شلوار علماء و صلحاء کا لباس ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند بھی ہے؛ اس لیے  یہ غیر شرعی لباس میں داخل نہیں، جب کہ  شرٹ اور پتلون درحقیقت غیر مسلموں کا ہی لباس تھا، جب مسلمان عیش پرستی کا شکار ہوگئے تو  نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حکومتیں زوال پذیر ہوگئیں، اور مسلمانوں سے شکست خوردہ قومیں برسرِ اقتدار آگئیں، چند روز تک مسلمانوں کو اپنی شکست اور ذلت کا احساس رہا، مگر پھر رفتہ رفتہ   مسلمانوں نے ان  کے معاشرے ، تمدن اور وضع قطع کو قبول کرنا شروع کردیا، نوبت یہاں تک پہنچ  گئی کہ اسلامی  ممالک کے باشندے غیروں کے معاشرے میں ایسے رنگے کہ اپنے اور پرائے ، مسلم اور غیر مسلم کا ظاہرِ نظر  میں کوئی فرق نہیں رہا؛ لہذا موجودہ زمانے میں پینٹ شرٹ کے کثرتِ استعمال اور معاشرے میں اس کے شیوع  اورعام ہونے کے سبب  اکثر ممالک میں یہ کسی غیر قوم کا شعار تو نہیں رہا، اس لیے اس میں غیر اقوام  کے شعار ہونے کی حد تک  تو  تشبہ باقی نہیں رہا، البتہ یہ فساق و فجار  اور غیر صلحاء کا لباس اب بھی ہے، اور جس طرح غیر مسلموں سے مشابہت ممنوع ہے، اسی طرح فساق و فجار اور غیر صلحاء سے  مشابہت بھی ممنوع ہے۔

’’مرقاۃ المفاتیح ‘‘  میں ہے؛

’’(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلاً في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق، هذا وقد حكى حكايةً غريبةً ولطيفةً عجيبةً، وهي أنه لما أغرق الله سبحانه فرعون وآله لم يغرق مسخرته الذي كان يحاكي سيدنا موسى عليه الصلاة والسلام في لبسه وكلامه ومقالاته، فيضحك فرعون وقومه من حركاته وسكناته ؛ فتضرع موسى إلى ربه: يا رب! هذا كان يؤذي أكثر من بقية آل فرعون، فقال الرب تعالى: ما أغرقناه ؛ فإنه كان لابساً مثل لباسك، والحبيب لا يعذب من كان على صورة الحبيب، فانظر من كان متشبهاً بأهل الحق على قصد الباطل حصل له نجاة صورية، وربما أدت إلى النجاة المعنوية، فكيف بمن يتشبه بأنبيائه وأوليائه على قصد التشرف والتعظيم، وغرض المشابهة الصورية على وجه التكريم؟‘‘ (8/155، الفصل الثانی، ط: رشیدیہ)

         اور یہ ممانعت کا حکم زمان اور مکان کے لحاظ سے  تبدیل بھی ہوسکتا ہے، جس علاقہ میں جتنی زیادہ مشابہت متصور ہوگی، اسی کے مطابق کراہتِ تحریمیہ، تنزیہیہ، اور خلافِ اولیٰ ہونے کا حکم  لگے گا؛ چناں چہ اکابر نے لکھا ہے کہ اگر کسی علاقے میں پینٹ شرٹ اب بھی غیر قوم کا مخصوص لباس اور شعار سمجھاجاتاہو تو وہاں مشابہت کا حکم باقی رہے گا۔

لہذا ہمارے زمانے اور علاقوں کے صلحاء نے جو لباس پہنا ہے وہ حدیث سے ثابت ہے، تاہم اگر کوئی مرد تہہ بند  اور کرتا استعمال کرے تو وہ اور بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔نیز پینٹ شرٹ میں کفار کی یا فساق کی مشابہت ہے جو کہ ممنوع ہے۔

آخر میں ایک وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ شاید بعض حضرات مروجہ جبے  کی تمام اقسام کو سنت سے ثابت شدہ سمجھتے ہوں! یہاں مروجہ جبوں اور ان کی اقسام کے حوالے سے تفصیل اور پس منظر بیان کرنے کا موقع تو نہیں ہے، تاہم اتنی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کئی احادیثِ طیبہ میں ٹخنے چھپانے کی سخت ممانعت منقول ہے، اور رسول اللہ ﷺ کا معمول نصف ساق (آدھی پنڈلی) تک لباس رکھنے کا بکثرت منقول ہے، اس لیے اگر جبہ پہننا ہو تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ٹخنوں سے اوپر ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں