بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت غیر موکدہ اور نوافل کے قعدہ اولی میں درود اور دعا اور تیسری رکعت میں ثناء پڑھنا / جمعہ اور سنت کی قضا


سوال

 میرے آپ سے یہ تین سوالات ہیں:

(1) میں محلے کی ایک قریبی مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے گیا، وہاں جو حافظ صاحب امامت کرواتے ہیں وہ ایک دوسری بڑی مسجد و مدرسے سے یہاں امامت کروانے آتے ہیں؛ کیوں کہ ان کی ذمہ داری لگی ہوئی ہے اور یہ دوسری مسجد و مدرسہ بھی گھر کے دوسری جانب اتنا ہی ہے جتنا کہ پہلی مسجد ہے۔ انہوں نے کہا کہ " عصر اور عشاء کی جماعت سے پہلے جو چار چار غیر موکدہ سنتیں ادا کرتے ہیں ان میں آپ کو دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھے ہوئے "التحیات" کے بعد "درود ابراہیمی اور رب جلعنی" پورا آخر تک پڑھنا ہے، لیکن سلام نہیں پھیرنا اور اسی طرح پھر تیسری رکعت میں پہلی رکعت کی طرح ثناء، الحمد شریف اور کوئی سورت پڑھنی ہے " کیا ایسا ہی لازم ہے ؟ یا پھر دوسری حالت میں جس طرح ہم دوسری رکعت میں صرف التحیات پڑھ کر اٹھ جاتے ہیں اور پھر الحمد شریف پڑھتے ہیں بس یا ایسا بھی کر سکتے ہیں ؟

(2) جیسا کہ آپ بتاتے ہیں کہ قضائے عمری صرف فرض نمازوں کی ہوتی ہے تو نماز جمعہ کے جو دو فرائض امام صاحب کے پیچھے پڑھے جاتے ہیں کیا ان کی بھی قضائے عمری ہے؟  اگر ہے تو طریقہ بتا دیں اگر نہیں ہے تو بھی وجہ بتادیجیے گا۔

(3) موکدہ سنتوں کی قضائے عمری ادا کرنی چاہیے یا پھر نہیں ؟ براہ کرم مجھے ان تینوں سوالات سے متعلق اچھی طرح راہ نمائی فرمادیجیے گا۔

جواب

1۔۔ سنت غیر موکدہ  اور نوافل کی ہر دو رکعت مستقل نماز ہوتی ہے،اگر چار رکعت سنت غیر مؤکدہ یا نوافل پڑھ رہے ہوں تو   اس میں بہتر یہی ہے کہ  دوسری رکعت کے قعدہ کے بعد درود اور دعا پڑھیں، اور تیسری رکعت میں ثنا بھی پڑھیں، تاہم اگر دوسری رکعت کے قعدے میں التحیات کے بعد درود اور دعانہیں پڑھی یا تیسری رکعت کے شروع میں ثنا نہیں پڑھی تو بھی نماز ادا ہوجائے گی، اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں آئے گا، نیز کراہت بھی نہیں ہوگی۔

2۔۔ جمعہ کی نماز اگر قضا ہوجائے یا کہیں جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں  تو اس کا بدل ظہر کی نماز ہے، لہذا اگر کسی کی جمعہ کی نماز رہ جائے تو اس  کی قضا میں ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور قضا کرنے میں ظہر کی نماز کی نیت کرلی جائے ۔ اگر یاد ہوتو تعین کے ساتھ نیت کرلے اور زیادہ ہوں اور یاد نہ ہو تو  اس طرح نیت کرے کہ میرے ذمہ جتنی ظہر کی نماز ہیں ان میں سے پہلی کی قضا کرتا ہوں۔

3۔۔ اگرسنت موکدہ کی  نماز اپنے وقت کے اندر ادا نہیں کی گئی تو  وقت گزرنے کے بعد اس کی قضا نہیں ہے، تاہم بلاعذر چھوڑنا گناہ ہے جس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔ البتہ فجر کی سنت اگر رہ جائے تو  اسی دن طلوع کے بعد  زوال سے پہلے اس کی قضا کی جاسکتی ہے ۔

"(قوله: في وقته) فلا تقضى بعده لا تبعاً ولا مقصوداً بخلاف سنة الفجر". ( شامی2/ 58)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں