بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سمندری سفر میں قصر کریں گے یا پوری نماز پڑھیں گے؟


سوال

سمندر میں جب کشتی میں محنت مزدوری کے لیے ہم نکلیں تو نماز پوری پڑھیں گے یا قصر کریں گے؟ 

جواب

سمندر میں اگر کشتی پر سفر کرتے ہوئے سفر  شرعی کی مسافت یا اس سے زیادہ سفر کا ارادہ ہو  تو  مسافر شمار ہوں گے اور دیکھا جائے گا کہ سمندر  اگر کسی شہر سے لگتا ہےتو  اس صورت میں جہاز / کشتی کے حرکت کرتے وقت سے سفر شروع ہوجائے  گا،  اس کے   لیے شہر کی فصیل کا اعتبار نہیں۔  تاہم اگر جہاز شہر  کی عمارتوں کے ساتھ چل رہا ہو تو جب تک ان عمارتوں سے آگے نہ نکل جائے سفرِ شرعی شروع نہیں ہوگا اور نماز قصر نہیں پڑھی جائے گی۔اسی طرح  اگر شرعی سفر کی مسافت کا ارادہ نہ ہو ، بلکہ قریب قریب ہی کشتی میں جاکر واپسی ہوجاتی ہو تب بھی مسافر شمار نہ ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے۔ 

سفر شرعی کی مسافت کلومیٹر کے حساب سے  سوا ستترکلو میٹر ہے، میل کے حساب سے اڑتالیس میل اور اصل کے حساب سے تین دن صبح سے لے کر دوپہر تک معتدل سفرہے۔ 

"وفي الولوالجية: افتتح الصلاة في السفينة حالة إقامته في طرف البحر فنقلتها الريح وهو في السفينة فنوى السفر يتم صلاة المقيم عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى -. وفي الحجة: الفتوى على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - احتياطاً". (الفتاوى الهندية : ١/ ١٤٤)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں