بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سفرمیں جب واپسی معلوم نہ ہو تونماز کا حکم


سوال

 میں کوئٹہ سے لاہور آیا ہوں، میرا اِرادہ تھا کہ پندرہ دن سے پہلے میرا کام ختم ہوگا میں گاؤں چلا جاؤں گا، لیکن اب میرے کام میں اندازًا دس دن اور بھی لگ سکتے ہیں، ابھی مجھے پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں، اب بھی میرایہی ارادہ ہے کہ جس وقت میرا کام ختم ہوگا  میں گاؤں چلا جاؤں گا، اس صورت میں کیا میں قصر نماز پڑھ لوں یا پوری پڑھوں؟  

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ (کوئٹہ سے) مسافتِ شرعی طے کرکے لاہور  آئے ہیں اور لاہور   میں آپ قصد کرکے پندرہ دن نہیں ٹھہرے ہیں اور نہ ہی  پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کا قصد کیا ہے،  بلکہ آج کل میں کبھی بھی واپس روانہ ہوسکتے ہیں اور لاہور آپ کا وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں جب تک آپ یہاں ہیں قصر کریں گے۔ 

لاہور کے وطنِ اصلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں آپ کی مستقل رہائش ہو، اور وطنِ اقامت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً: آپ وہاں اس سے پہلے پندرہ دن یا اس  سے زیادہ ٹھہرے ہوں اور کوئی مکان کرائے پر لیا ہو یا ہاسٹل میں قیام رکھا ہو اور اب اس عارضی رہائش گاہ میں آپ کا کچھ سامان آپ کی غیر موجودگی میں رہتاہو، تو جب تک آپ اس عارضی اقامت گاہ سے اپنا سامان منتقل کرکے مستقل طور پر اس شہر کو ترک نہیں کریں گے، یہ آپ کا وطنِ اقامت شمار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو دخل بلدة ولم ينوها) أي مدة الإقامة (بل ترقب السفر) غدا أو بعده (ولو بقي) على ذلك (سنين) إلا أن يعلم تأخر القافلة نصف شهر كما مر.

(قوله: أو دخل بلدة) أي لقضاء حاجة أو انتظار رفقة.
(قوله: ولم ينوها) وكذا إذا نواها وهو مترقب للسفر كما في البحر لأن حالته تنافي عزيمته."

(باب صلوة المسافر، ج:2، ص:126، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144111200363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں