بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر کی نماز چند سوالات


سوال

1۔ ایک شخص پاکستان کا باشندہ ہے اور (عمان) میں کام کرتا ہےاور (عمان)سے تقریباً 170 کلو میٹر دور سفر پر نکلتا ہے، اسی طرح واپسی کا راستہ (عمان) تک، تو اب اس دورانِ سفر میں اس پر قصر لا ز م ہے یا اتمام؟

2۔  جب کسی وقت کی اذان مجھ پر اپنی رہائش گاہ پر ہوجاتی ہے اور میں سفر پر نکل جاتا ہوں تو یہ جو مجھ پر قیام گاہ کی جگہ اذان ہوئی تو اس نماز کا میں قصر کرو ں یا اتمام؟ اور یا اس کے برعکس یعنی  سفر میں مجھے پر اذان ہوئی اور میں اپنے رہائش گاہ پر آیا تو میں قصر کروں  یا اتمام؟

جواب

1۔ اگر مذکورہ شخص 170 کلومیٹر کے سفر کے ارادے سے شہر کی حدود سے نکلتا ہے تو راستے میں وہ قصر کی نماز پڑھے گا، اسی طرح واپسی میں شہر کی حدود میں داخل ہونے تک وہ قصر نماز پڑھے گا۔

2۔ نماز کے قصر یا اتمام کا تعلق اذان سے نہیں ہے، بلکہ نماز کے آخری وقت سے ہے، اگر مذکورہ شخص نماز کے وقت کی ابتدا میں شہر کی حدود سے نہیں نکلا، وقت ختم ہونے سے پہلے شہر کی حدود سے نکل گیا اور اس نے اس وقت تک نماز نہیں پڑھی تھی  تو وہ قصر نماز پڑھے گا اور اگر وہ نماز کے وقت کی ابتدا میں مسافر تھا، وقت ختم ہونے سے پہلے مقیم ہوگیا اور اس نے نماز نہیں پڑھی تھی تو وہ اتمام کرے گا۔

الفتاوى الهندية (1 / 139):

"قال محمد - رحمه الله تعالى-: يقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر، كذا في المحيط. وفي الغياثية: هو المختار. وعليه الفتوى، كذا في التتارخانية. الصحيح ما ذكر أنه يعتبر مجاوزة عمران المصر لا غير، إلا إذا كان ثمة قرية أو قرى متصلة بربض المصر، فحينئذ تعتبر مجاوزة القرى، بخلاف القرية التي تكون متصلةً بفناء المصر، فإنه يقصر الصلاة وإن لم يجاوز تلك القرية، كذا في المحيط. و كذا إذا عاد من سفره إلى مصره لم يتم حتى يدخل العمران، ولايصير مسافرًا بالنية حتى يخرج، ويصير مقيمًا بمجرد النية، كذا في محيط السرخسي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 131):

"(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافرًا وجب ركعتان وإلا فأربع)؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں