بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر میں نماز کا حکم


سوال

سفر میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص  سوا ستتر (77.25) کلومیٹر  یا اس سے زیادہ سفر کے ارادے سے روانہ ہو اور اپنے شہر/قصبے کی آبادی سے نکل جائے تو وہ شرعی مسافر کہلاتاہے، پھر جب تک وہ اپنے علاقے میں نہ لوٹ آئے یا کسی آبادی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ اقامت کی نیت سے نہ ٹھہرجائے تب تک وہ شرعی مسافر رہتاہے۔

شرعی سفر کے دوران پنج وقتہ نماز ادا کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح اقامت کی حالت میں فرض ہے، البتہ اگر شرعی مسافر تنہا نماز ادا کرے یا امامت کرے تو چار رکعات والی فرض نمازیں (ظہر، عصر اور عشاء کے فرائض) چار کے بجائے اسے دو رکعت ادا کرنا لازم ہے، اسے شرعی اصطلاح میں ’’قصر‘‘ کہتے ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے رخصت ہے اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے علاوہ فرض (فجر اور مغرب) اور واجب (وتر کی) نمازوں میں قصر نہیں ہے، یہ پوری ادا کرنا ضروری ہے۔

اور سنتوں کے حوالے سے حکم یہ ہے کہ اگر سفر جاری ہو (مثلاً ریل گاڑی یا بس یا جہاز میں ہوں) اور کسی جگہ قیام نہ کیا ہو اور سنتیں ادا کرنے میں سہولت نہ ہو تو فجر کی سنتوں کےعلاوہ دیگر سنن مؤکدہ اور غیر مؤکدہ چھوڑی جاسکتی ہیں۔ فجر کی سنتوں کی ادائیگی بہرحال ضروری ہے۔ اور اگر شرعی مسافر کا کسی جگہ قیام ہو (خواہ پندرہ دن سے کم ہو) اور سنتیں ادا کرنے میں سہولت ہو تو تمام نمازوں کی سنتیں ادا کرنی چاہییں۔ واضح رہے کہ سنتوں میں بھی قصر کا حکم نہیں ہے، یعنی جتنی رکعات حالتِ حضر (اقامت) میں ادا کی جاتی ہیں اتنی ہی رکعات شرعی سفر میں بھی ادا کی جائیں گی۔

اور  اگر شرعی مسافر  مقیم امام کی اقتدا میں کوئی بھی نماز (پنج وقتہ نمازیں، رمضان المبارک میں تراویح اور وتر، نمازِ جمعہ و عیدین) ادا کرے، تو مقیم کی اقتدا کی وجہ سے اسے یہ تمام نمازیں مکمل ادا کرنی ہوں گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں