بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر میں اقامتِ اصلی اور اقامتِ عارضی کیا ہے؟


سوال

سفر  میں اقامتِ اصلی اور اقامتِ عارضی کیا ہے؟

جواب

1-  وطن دو قسم کا ہوتا ہے:

 اول ’’وطنِ اصلی‘‘ یعنی انسان کے پیدا ہونے کی جگہ ہے جب کہ وہ وہاں رہتا ہو یا وہ جگہ جہاں اس کے اہل و عیال رہتے ہوں اور اس نے اس کو گھر بنا لیا ہو۔

دوم ’’وطنِ اقامت‘‘ یعنی جہاں آدمی پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت سے عارضی رہائش اختیار کرے۔ 
2-  وطنِ اصلی وطنِ اصلی سے باطل ہو جاتا ہے، خواہ اس کے درمیان مسافتِ سفر ہو یا نہ ہو، پس اگر کسی شخص نے اپنا شہر بالکل چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ اپنا گھر بنا لیا اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہاں رہنے لگا، پہلے شہر اور پہلے گھر سے کچھ مطلب نہیں رکھا تو اب یہ دوسرا شہر اس کا وطنِ اصلی بن گیا اور پہلا شہر اس کے لیے پردیس ہو گیا۔
3-  وطنِ اصلی سفر کرنے سے باطل نہیں ہوتا اور وطنِ اقامت سے بھی باطل نہیں ہوتا، اس لیے جب بھی اپنے وطنِ اصلی میں آ جائے گا پوری نماز پڑھے گا، اگرچہ ایک ہی نماز کے وقت کے لیے آیا ہو اور خواہ اپنے اختیار سے آیا ہو یا اثنائے سفر میں کسی ضرورت کے لیے یا وہاں سے گزرنے کی نیت سے اس میں داخل ہوا ہو اور خواہ اقامت کی نیت کرے یا نہ کرے ہر حال میں پوری نماز پڑھے۔
4-  ایک وطنِ اقامت دوسرے وطنِ اقامت سے باطل ہو جاتا ہے، پس اگر ایک وطنِ اقامت کو ترک کر کے دوسری جگہ وطن اقامت بنا لیا یعنی دوسری جگہ پندرہ دن یا زیادہ قیام ٹھہرنے کی نیت کر لی تو پہلا وطنِ اقامت ختم ہو گیا خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیاں مسافتِ سفر ہو یا نہ ہو۔ نیز شرعی سفر کرنے یا وطنِ اصلی میں پہنچ جانے سے بھی وطنِ اقامت باطل ہو جاتا ہو بشرطیکہ وطنِ اقامت میں دوبارہ لوٹنے کی نیت سے اپنا سامان وغیرہ چھوڑ کر نہ آیا ہو، لہٰذا اگر وطنِ اقامت سے سفرِ شرعی یعنی تین منزل پر روانہ ہو جائے تو اقامت باطل ہو جائے گی اور دوبارہ اس جگہ پر آنے پر قصر نماز ادا کرے گا، اور اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی سے کم مقدار پر روانہ ہو گا تو وطنِ اقامت باطن نہیں ہو گا اور دوبارہ یہاں آنے پر پوری نماز پڑھے گا، اسی طرح اگر اپنے وطنِ اصلی میں داخل ہو گیا تب بھی وطنِ اقامت باطل ہو جائے گا اور دوبارہ یہاں آنے پر قصر کرے گا،  لیکن اگر ان صورتوں میں دوبارہ اس مقام پر آ کر پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لے گا تو اب دوبارہ وطنِ اقامت ہو جائے گا۔ البتہ اگر وطنِ اقامت (مثلاً ملازمت کی جگہ جہاں کم از کم ایک مرتبہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے قیام کیا ہو) سے سفرِ شرعی کی مسافت پر جاتے ہوئے یا وطنِ اصلی آتے ہوئے نیت یہ ہو کہ دوبارہ وطنِ اقامت آئے گا تو وطنِ اقامت باطل نہیں ہوگا، اور دوبارہ لوٹنے کی صورت میں اقامت کی نیت کے بغیر ہی اقامت سمجھی جائے گی، اور نمازیں مکمل ادا کرنی ہوں گی۔ (زبدۃ الفقہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں