بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر سے وطن اصلی واپسی کے وقت راستہ مسافت شرعی سے کم ہونے کی صورت میں قصر کا حکم


سوال

اگر آدمی سفر شرعی کی مسافت  کی دوری پوری کرچکا ہو اور  اگر  واپسی میں اس کا وطن اصلی سفر کی مسافت شرعی کی دوری پر نہ ہو تو کیا واپسی میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟ یعنی  واپسی میں بھی قصر کے لیے مسافت شرعی کا ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟

جواب

اگر کوئی شخص مسافت شرعی(سوا ستتر کلومیٹر) طے کر کے مسافر بن چکا ہو اور سفر میں قصر کرتا رہا ہو، لیکن واپسی کے وقت جس جگہ سے اپنے وطن اصلی تک واپسی کا سفر  طے کرنا ہو اس جگہ اور وطن اصلی کے درمیان شرعی مسافت سفر کے برابر فاصلہ نہ ہو  (یا تو اس وجہ سے کہ وہ سفر کرتے کرتے واپسی سے پہلے ایسی جگہ آکر ٹھہرا ہو جو اس کے وطنِ اصلی سے مسافت شرعی سے کم مسافت پر واقع  ہو یا اس وجہ سے کہ وہ واپسی کے وقت ایسے قریبی راستے کو اختیار کرے جو مسافت شرعی سے کم ہو ) تو اس کی دو صورتیں ہیں:

۱)جہاں ٹھہرا ہوا تھا اگر اس جگہ کم از کم پندرہ دن ٹھہر کر واپس ہورہا ہے تو اب واپسی میں قصر نہیں کرسکتا، کیوں کہ مقیم ہوجانے کے بعد سفر کا آغاز ہوا ہے، لیکن مسافت شرعی ( سوا ستتر کلومیٹر) سے کم ہے ، جب کہ اس صورت میں واپسی کے وقت قصر کے لیے سفر کی مسافتِ شرعی  کا ہونا ضروری ہے۔

۲)لیکن اگر جس جگہ سے واپسی ہورہی ہے وہاں   پندرہ دن قیام نہ کرنے کی وجہ سے مقیم نہیں تھا، بلکہ مسافر تھا اور قصر کر رہا تھا تو  اب واپسی میں بھی وطنِ اصلی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے قصر کرتا رہے گا، کیوں کہ اس صورت میں پہلے ہی سے مسافر تھا، نئے سرے سے سفر شروع نہیں کیا، اور مسافر جب تک وطنِ اصلی میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ قصر کرتا ہے، اس صورت میں واپسی کے وقت قصر کے لیے سفر کی مسافتِ شرعی کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ دونوں صورتوں (یعنی چاہے مسافتِ شرعی ہو یا نہ ہو) میں وطنِ اصلی میں داخل ہونے سے پہلے پہلے قصر کرنا لازم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 123):

"ولو لموضع طريقان: أحدهما مدة السفر، والآخر أقل، قصر في الأول لا الثاني.

(قوله: قصر في الأول) أي ولو كان اختار السلوك فيه بلا غرض صحيح خلافاً للشافعي، كما في البدائع".

الفتاوى الهندية (1/ 138):

"وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94):

"وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر".

الفتاوى الهندية (1/ 139):

"ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين وإلا لا يترخص أبداً ... ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 425):

"ولا يزال" المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً "يقصر حتى يدخل مصره" يعني وطنه الأصلي "أو ينوي إقامته نصف شهر ببلد أو قرية" قدره ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم وإذا لم يستحكم سفره بأن أراد الرجوع لوطنه قبل مضي ثلاثة أيام يتم بمجرد الرجوع وإن لم يصل لوطنه لنقضه السفر؛ لأنه ترك بخلاف السفر لا يوجد بمجرد النية حتى يسير، لأنه فعل "وقصر إن نوى أقل منه" أي من نصف شهر "أو لم ينو" شيئاً "وبقي" على ذلك "سنين".

قوله: "في محل تصح إقامة فيه" شروط إتمام الصلاة ستة النية والمدة واستقلال الرأي واتحاد الموضع وصلاحيته وترك السير در قوله: "يقصر" جملة يقصر صفة مسافراً قوله: "يعني وطنه الأصلي" ومنتهى ذلك بالوصول إلى الربض، فإن الانتهاء كالابتداء والإطلاق دال على أن الدخول أعم من أن يكون للإقامة أولا، ولحاجة نسيها". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں