بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کی جانب سے بہو پر الزام لگانے کی صورت میں شوہر کی ذمہ داری


سوال

 ہماری شادی تقریباً سات سال پہلے ہوئی ہے۔ میرے شوہر ماشاء اللہ سمجھ دار اور دین سے تعلق رکھنے والے ہیں، اپنی اہلیہ، بچوں اور اپنے والدین وغیرہ سب کا خیال رکھتے ہیں۔شادی کے ابتدائی چار سال بالکل پُرسکون گزرے، ( ہلکی پھلکی نوک جھونک تو چلتی ہی رہتی ہے ۔)آج سے تین سال قبل ہماری ساس صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد سسر صاحب (جو ریٹائرڈ ہیں، ہر وقت گھر میں ہی ہوتے ہیں)نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنا کر شور شرابہ کرنا شروع کردیا۔اورہماری خامیاں(جو سسر صاحب کی نظر میں خامی ہے، ان کا ذکر آگے کروں گی) ہمیں اورہمارےشوہر کو بتانے کے بجائے خاندان کے دوسرے لوگوں کو بتانا شروع کردیں، کبھی کبھار گھر میں بھی بتا دیتے تھے۔ (لیکن بتانے کا انداز کبھی اصلاح، ناصحانہ اور پیار و محبت والا نہیں ہوتاتھا، ہمیشہ ہی غصہ،چیخ و پکاراور گالم گلوچ والا ہوتاتھا ، جس میں ماں بہن کی گالیاں تو معمول کی باتیں ہیں۔)

ہماری خامیاں(جوسسر صاحب لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں):

(۱)گھر میں چپل پہنتی ہے۔(واضح رہے کہ ہماری عادت ہے گھر میں چپل پہننے کی، اور گھر کی یہ چپل مستقل الگ ہوتی ہے۔  نیز یہ بھی واضح رہے کہ ہماری ساس صاحبہ اور نندیں بھی اپنے گھروں میں چپل پہنتی ہیں)

(۲)متکبر اور مغرور ہے۔

(۳)ماڈرن اور آوارہ ہے ۔(واضح رہے کہ میں حافظہ ہوں اوردین دار گھرانے سے تعلق ہے، البتہ کبھی کبھار شام میں اپنے شوہر کی اجازت سے دیگر قابلِ اعتماد پڑوسی خواتین کے ساتھ یا اپنے شوہر کے ساتھ بچوں کو لے کر گھر کے نیچے ہی پارک چلی جاتی ہوں، جس بنا پرمجھے آوارہ کا لقب ملا)۔

(۴) اس کی چال طوائفوں کی طرح ہے۔

(۵) میں دوپہر ۳ سے ۴ کے درمیان گھر میں محلے کے بچوں اور بچیوں کو پڑھاتی ہوں ، اس پر بھی اعتراض ہے۔

(۶) کام کاج میں سست ہے(حال آں کہ گھر کے تقریباً سب کام ہی میں خود کرتی ہوں، اس کے علاوہ گھر میں کوئی خاتون نہیں، صرف جھاڑو پونچے کے لیے خادمہ آتی ہے۔یہ خطاب بھی اس لیے ملا کہ عموماً دوپہر ۱۲ سے ۲ کے درمیان آرام کرتی ہوں۔)وغیرہ وغیرہ۔

اب گزشتہ ایک ماہ قبل ہمارے سسر صاحب ا پنی ہی بہن سے فون پر باتیں کررہے تھے،آواز کافی بلند تھی جس کو آس پڑوس کے لوگوں نے بھی سنا۔جس میں انہوں نےمیرے بارے میں جو باتیں کیں، میں نے ان کو موبائل میں ریکارڈ بھی کر لیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

(۱)انہوں نے مجھے اور شوہرکوماں بہن وغیرہ ایک سے ایک گالی دی۔

(۲)یہ بات بھی کہی کہ میں اس (یعنی اپنی بہو)کے ساتھ ایسی حرکت کروں گا کہ یہ اپنے شوہر پر حرام ہوجائےگی۔(واضح رہے کہ عموماً صبح ۸ تا ۲ بجے میں گھر میں اکیلے ہوتی ہوں، اور سسر صاحب ہوتے ہیں۔بڑی بچی ،مدرسہ اور شوہر صاحب اپنے کام پر چلے جاتے ہیں)

(۳)میرے شوہر (یعنی اپنے بیٹے)کے بارے میں کہا کہ اس کو اپنی جائیداد سے عاق کردوں گا کہ یہ اپنی بیوی کا غلام بن گیا ہے وغیرہ۔

(۴)میرے بارے میں کہا کہ طوائفوں کی طرح چلتی اور بولتی ہے وغیرہ۔(یہ الفاظ اکثر استعمال کرتے ہیں)

(۵)ہمارے بارے میں کہا کہ اس کا شوہر اس کو اپنی خواہش پوری(یہاں الفاظ سسر صاحب نے انتہائی بے ہودہ استعمال کیے جو میں نہیں لکھ سکتی )، کرنے لایا ہے کام کاج تو کرتی نہیں ہے۔ اس کے دو دن بعد میرے جیٹھ جو پاکستان سے باہر ہوتے ہیں، ان سے سسر صاحب نے فون پر رابطہ کیا اورکم و بیش اسی طرح کی باتیں کیں۔انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو الٹا ان کو ڈانٹنے لگے کہ تم ان کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔

اس کے علاوہ گھر میں بھی اور فون پر بھی کچھ نا کچھ اس طرح کی باتیں اور الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں کہ سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں کہ اپنی بہو کے بارے میں بھی کوئی ایسی زبان استعمال کر سکتا ہے۔ نیز بچوں پر بھی بہت زیادہ روک ٹوک کرتے ہیں، نہ گھر میں کھیلنے دیتے ہیں نہ باہر، بچے اپنی بچکانہ حرکتیں کریں یا کھیل کھیلیں تو اس پربھی ڈانٹ ڈپٹ اور غصہ کرتے ہیں، بعض اوقات تو ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ (تینوں بچیاں ہیں، جن کی عمربالترتیب سب سے بڑی چھ سال، ۳ سال اور ٦۰ دن ہے)۔ یہ بھی واضح رہے کہ بچوں پر یہ غصہ صرف ہمارے بچوں پر ہے، اس کے علاوہ جیٹھ کے بچوں پر وہ جو کچھ بھی کریں، ایسا غصہ نہیں کرتے ۔

اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ہم بہت سخت ذہنی پریشانی اور اذیت کا شکار ہیں، نیز گھر کے روزانہ کے یہ معاملات دیکھ کر بچے بھی ڈسٹرب ہیں(جس کی شکایت بڑی بچی  کے مدرسے سے بھی کئی بار آچکی ہے)۔شرعی طور ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟

(۱) ہم اس گھر میں سسر صاحب کے ساتھ رہیں یا الگ ہوجائیں؟ (الگ ہونے کی صورت میں ہمارےشوہر کو اپنے والد کی فکر ہے کہ وہ تنہا ہوجائیں گے۔) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ بالواسطہ اور بلا واسطہ سسر صاحب کئی بارہمیں گھر سے نکلنے کا حکم دے چکے ہیں۔

(۲) ساتھ رہنے کی صورت میں میرےلیے کیا حکم ہے ؟ کس حد تک اپنے سسر کے سامنے آؤں اور کس قدر احتیاط کروں؟

  (۳)یہ بھی واضح کریں کہ سسر کس حد تک اپنی بہو پر حکم جاری کرسکتا ہے اور کس حد تک روک ٹوک کرسکتا ہے؟

(۴)سسر صاحب کا اپنی بہو کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنا شرعی طور پر کیسا ہے؟ 

جواب

 بصورتِ مسئولہ بشرطِ صدقِ واقعات  وصحتِ  بیانات آپ کے سسر کا رویہ بہت نامناسب اور غیر شرعی ہے۔ آپ کے شوہر اور ان کے دیگر بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے والد صاحب کے لیے کوئی رشتہ دیکھ کر ان کا نکاح کرادیں۔

اگر اس گھر میں رہتے ہوئے سائلہ کے لیے سسر سے دور رہنا اور اجتناب ممکن ہے تو رہائش علیحدہ نہ کیجیے۔ البتہ سائلہ کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے سسر سے دور رہے، اور خلوت میں ان کے ساتھ  ہرگز نہ رہے، بہو کو  اپنے سسر کی خدمت اخلاقاً اگرچہ کرنی چاہیے،  تاہم مسئولہ صورت میں اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے سسر سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ نیز ان کی ہدایت اور ان کے شر سے حفاظت کی دعا بھی کرتی رہیے۔   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں