بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری کام اپنے مال سے کرکے رقم وصول کرنا


سوال

بندہ ایک سرکاری سکول میں بطور ہیڈماسٹر کے فرائض سرانجام دے رہا ہے، بندے پر باقی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ ذاری یہ بھی ہے کہ وہ اسکول کی اشیاءِ ضرورت کی دیکھ بھال کرے اور کمی کی صورت میں ان کو پورا کرے اور اس کے لیے بندہ کو سرکاری فنڈ ملتا ہے، جس سے وہ مذکورہ ذمہ داری بجا لاتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ بسا اوقات اسکول کے کام اپنے ذاتی روپے سے کرتا ہوں اور بعد میں فنڈ سے وصول کر لیتا ہوں اور بسا اوقات فنڈ کے روپے اپنے ذاتی استعمال میں لاتا ہوں، پھر حساب کر کے دوبارہ  فنڈ میں شامل کر دیتا ہوں. کیا از روئے شریعت میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

پہلی صورت (یعنی اپنی رقم سے کام کرواکر، بعد میں سرکاری فنڈ سے وصول کرنے) کا حکم یہ ہے کہ اگر آپ کی ذمہ داری میں یہ دیکھ بھال بھی داخل ہے اور مجاز اتھارٹی کی طرف سے صراحتاً یا دلالۃً اس بات کی اجازت ہے کہ فنڈ نہ ہونے کی صورت میں یا فنڈ منظور ہونے سے پہلے آپ اپنی رقم سے کام کرواکر بعد میں بل منظور کرواسکتے ہیں تو  آپ کا مذکورہ عمل جائز ہے، البتہ امانت داری سے پوری رقم کا حساب رکھیں۔ مقررہ تنخواہ کے علاوہ اضافی رقم یا اپنا کمیشن رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر آپ کو اجازت کا علم نہیں ہے تو متعلقہ ذمہ داران سے اس کی اجازت لے لیجیے۔

دوسری صورت (یعنی سرکاری فنڈ سے کچھ رقم اپنی ضرورت میں صرف کرکے  اور بعد میں اپنی رقم اس میں شامل کرنے) کا حکم یہ ہے کہ سرکاری فنڈ آپ کے پاس امانت ہے، اسے ذاتی استعمال میں صرف کرنا خیانت ہے، لہٰذا سرکاری فنڈ خود استعمال کرکے آپ سے گناہ ہوا ہے، اس پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

الفتاوى الهندية (3/ 211):
"وإن كان الخبث لعدم الملك كالغصوب والأمانات إذا خان فيها المؤتمن فإنه يشمل ما يتعين وما لايتعين عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى، كذا في التبيين".

فتاوی محمودیہ 540-16۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں