بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری زمین پر بنی قبروں کا منتقل کرنا


سوال

حکومت کی طرف سے تجاوزات کے خلاف جو آپریشن جاری ہے اس میں ایک جگہ دو قبریں بھی آرہی ہیں، جو 1998 کی ہیں،  کیا ورثاء کے لیے جائز ہے کہ آپریشن سے پہلے ہی قبریں کھود کر میت کے اگر کچھ اجزاء ہوں تو انہیں دوسری جگہ منتقل کریں؟

جواب

مٹی ڈال دینے کے بعد قبرسے میت کا نکالناشرعاً جائز نہیں ہے ، البتہ کسی شدید عذر مثلاً کسی غیر کی زمین میں بلااجازت تدفین کی گئی ہو،  یاغصب شدہ زمین میں مردہ کو دفنایاگیاہوتو اس صورت میں اس قبر کو برابر کردینا یامیت منتقل کرنے کی اجازت ہے۔اور اگر زمین موقوفہ ہو یا کسی کی مملوکہ زمین نہ ہوتو اس صورت میں ان قبروں کو باقی رکھنا چاہیے۔لہذامذکورہ صورت میں وہ زمین اگر کسی کی شخص کی مملوکہ نہیں ہے، بلکہ عام زمین ہے جہاں یہ قبریں موجود ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ان قبروں کو باقی رہنے دیاجائے۔تاہم اگرمسمار کیے جانے کااندیشہ ہوتو ورثاء  ان قبروں کو دوسرے مقام پر منتقل کرسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

’’( ولا يخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً‘‘.(2/238)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘. (4/486)

وفیه أیضاً:

’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں