ہماری کمپیوٹر اور موبائل ری پیئرنگ کی دوکان ہے، ہمارے علاقے میں موبائل کا سافٹ وئیر انسٹال کرنے کی فیس ایک سو پچاس روپے سے لے کر تین سو تک ہے اور ونڈو انسٹال کرنے کی فیس تین چار سو روپے ہے، حال آں کہ یہ میری نظر میں ایک معمولی سا کام ہے، کیا ان کاموں کے بدلے اتنی زیادہ فیس وصول کرنا شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ اسی طرح اگر بجلی میں معمولی سی خرابی بھی ہو تو الیکٹریشن دو چار منٹ لگاکر ٹھیک کر دیتا ہے اور اس کے بدلے ہزار سے پندرہ سو تک وصول کر لیتا ہے۔ خلاصہ کلام کہ کیا سروس یعنی کسی خدمت کے بدلے فیس لینا جائز ہے یا نہیں؟
شرعاً سروس کی فیس کے تعین کا معیار باہمی رضامندی سے طے پانے والا معاہدہ ہے، یعنی دونوں فریق باہمی رضامندی سے سروس کی جو فیس مقرر کرلیں وہ جائز ہوگی، البتہ ہر فریق پر دیانۃً یہ واجب ہے کہ وہ دوسرے فریق کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنی فیس مقرر نہ کرے جو اس کام کے لحاظ سے عرفاً بہت کم یا بہت زیادہ سمجھی جاتی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ فقہی اور قانونی اعتبار سے سروس کی فیس کے تعین کا معیار اگرچہ باہمی معاہدہ ہے ، لیکن اخلاقاً اور دیانۃً اس کا معیار کام کی نوعیت ہے۔
"[مطلب في بيان المراد بالزيادة على أجر المثل]
بقي شيء يجب التنبيه عليه، وهو ما المراد بزيادة أجر المثل؟ فنقول: وقعت الزيادة في أغلب كلامهم مطلقةً، فقالوا: إذا زادت بزيادة الرغبات. ووقع في عبارة الحاوي القدسي: أنها تنقض عند الزيادة الفاحشة.
قال في وقف البحر: وتقييده بالفاحشة يدل على عدم نقضها باليسير، ولعل المراد بالفاحشة ما لايتغابن الناس فيها، كما في طرف النقصان، فإنه جائز عن أجر المثل إن كان يسيرًا، والواحد في العشرة يتغابن الناس فيه كما ذكروه في كتاب الوكالة، وهذا قيد حسن يجب حفظه، فإذا كانت أجرة دار عشرة مثلًا وزاد أجر مثلها واحدًا فإنها لاتنقض كما لو آجرها المتولي بتسعة فلأنها لاتنقض بخلاف الدرهمين في الطرفين اهـ. أقول: لكن صرح في الحاوي الحصيري كما نقله عنه البيري وغيره أن الزيادة الفاحشة مقدارها نصف الذي أجر به أولًا اهـ ونقله العلامة قنلي زادة، ثم قال: ولم نره لغيره. والحق أن ما لايتغابن فيه فهو زيادة فاحشة نصفًا كانت أو ربعًا". [ردالمحتار: ٦/ ٢٣] فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144103200704
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن