بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرد علاقہ میں سردی کی وجہ سے تیمم کا حکم


سوال

اگر ایسی جگہ جہاں پانی سخت ٹھنڈا ہو، اتنا ٹھنڈا کہ ہاتھوں میں پانی ڈالیں تو درد ہونے لگتا ہے اور وہاں تیمم کے لیے مناسب جگہ نہ ہو تو وہاں کیسے وضو کیا جائے؟ مکمل یا ایسے ہاتھوں کو ہلکا گیلا کر کے منہ پر اور پاؤں پر پھیرا جائے؟ کیوں کہ کچھ دن پہلے ہم وانا وزیرستان گئے ایک رات کے لیے ملازمت کے سلسلے میں، لیکن وہاں پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ برداشت سے باہر، بہر کیف! ہم نے اس پانی سے وضو کر تو لیا، لیکن ایسے ٹھنڈے پانی سے نمونیہ یا لقاوی کا خطرہ ہوتا ہے، میرے ایک دو دوستوں نے صبح کی نماز ہی نہیں پڑھی۔ براہِ مہربانی اس معاملہ میں راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں سردی میں وضو کرنے کی خوب فضیلت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

سنن الترمذي ت بشار (1/ 105):
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ألا أدلكم على ما يمحو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: إسباغ الوضوء على المكاره، وكثرة الخطا إلى المساجد، وانتظار الصلاة بعد الصلاة، فذلكم الرباط".

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہوں کو دھونے والی چیز مشقت کے موقع پر (ٹھنڈک میں) وضو کرنا، مساجد کی جانب قدم بڑھانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا ہے، یہی گناہ سے بچنے کی سرحد اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 237):
"وعن علي بن أبي طالب، «عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من أسبغ الوضوء في البرد الشديد كان له من الأجر كفلان» ".

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سخت سردی کے زمانے میں اچھی طرح وضو کیا اسے دو گنا ثواب ملے گا۔

بہرحال! اگر کوئی شخص بیمار ہو اور سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے باعث جان جانے، یا کسی عضو کے تلف ہونے یا مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو  تو ایسی صورت میں تیمم کرنے کی اجازت ہوگی، لیکن اگر بیماری نہ ہو اور بیماری کا محض اندیشہ ہو تو اس صورت میں تیمم کی اجازت نہ ہو گی۔

لہذا جہاں تک ممکن ہو وضو ہی کرنا چاہیے۔ آج کل پانی گرم کرنے کے اسباب بھی عموماً ممکن ہوتے ہیں، یا ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے بعد جسم کو گرم رکھنے کے اسباب عموماً میسر ہوتے ہیں، اس لیے اولاً تو وضو ہی کرنا چاہیے، لیکن اگر واقعۃً وضو سے بیماری کے بڑھنے کا یقین ہو یا اہلِ تجربہ کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے اور تیمم سے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ" اُس کے لیے مناسب جگہ نہ ہو " کیوں کہ تیمم ہر ایسی چیز سے کیا جا سکتا ہے جو مٹی یا پتھر کی جنس میں سے ہو اور یہ اشیاء ہر جگہ اور ہر وقت دست یاب ہوتی ہیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 28):
"وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي. واختاره في الأسرار. لكن الأصح عدم جوازه إجماعاً، كذا في النهر الفائق. والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.

ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں