بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدے کی حالت میں دونوں پاؤں کی ایڑیاں ملانے کا حکم


سوال

 سجدے کی حالت میں دونوں پاؤں کی  ایڑیاں ملانا کیسا ہے،  سنت ہے یا بدعت ہے؟  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا والی حدیث اس بارے میں کافی نہیں ہے۔ اگر ملانا اور نہ ملانا دونوں سنت ہیں تو افضل کیا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ سجدہ میں دونوں پاؤں کی ایڑیوں میں  فاصلہ رکھنا یا دونوں ایڑیوں کو ملانا دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں۔ حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک واقعہ مروی ہے جس میں ہے:

"فوجدتُه ساجدًا راصًّا بین عقبیه."

یعنی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو  سجدے میں پایا، آپ  ﷺ کی دونوں ایڑیاں ملی ہوئی تھیں۔

(صحیح ابن حبان، باب صفۃ الصلوۃ، رقم الحدیث:1917)

دوسری حدیث حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں ہے:

"کان صلی اللہ علیه و سلّم إذا رکع بسط ظھرہ و إذا سجد وجّه أصابعه قِبَل القبلة فتفاجّ یعني وسّع بین رجلیه."

 اس حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں فاصلہ رکھتے تھے۔

تاہم فقہاء کی تصریحات کے مطابق پیروں کے درمیان فاصلہ رکھنے کا قول  زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے اور  یہی عمل اَفضل ہے۔اور  اس کی تائید حدیثِ  براء کے علاوہ اس سے بھی ہوتی ہے کہ مردوں کو بحالتِ سجدہ  تجافي  یعنی اَعضاء کے   کشادہ رکھنے  اور  ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور  فقہاء اس کو مسنون قرار دیتے  ہیں۔  

باقی رہی یہ بات کہ حدیث عائشہ  رضی اللہ عنھا میں "فوجدتُه ساجدًا راصًّا بین عقبیه" کے الفاظ ایڑیوں کے ملانے پر صراحتاً دلالت کرتے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ  عائشہ میں  ایک جزوی واقعے کا ذکر ہے، اور حدیث ِ براء  میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول کا ذکر ہے،یا ایڑیوں کو ملانے کا مطلب  محاذات اور برابر رکھنا ہے، الصاقِ حقیقی  (دونوں کا ملانا) مراد نہیں ہے۔یاالفاظ کی یہ زیادتی شاذ ہے، جو قابلِ استدلال نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ حدیث مختلف طُرق کے  ساتھ مختلف کتب میں مذکور ہے؛ لیکن یہ الفاظ "فوجدتُه ساجدًا راصًّا بین عقبیه" صرف یحییٰ بن ایوب نقل کرتے ہیں جو کہ صحیح ابن حبان،شرح معانی الآثار،البیہقی  میں منقول ہے، اور دوسرے ثقات (صحیح مسلم،ابوداود،مسنداحمد،نسائی میں موجود راوی)  اس کی مخالفت کرتے ہیں؛ لہٰذا یہ زیادتی شاذ  ہے۔

باقی یہ عمل نماز میں کرنا بدعت نہیں ہے،اگر کوئی کرے تو  کوئی حرج نہیں،  نماز درست ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند، ج:2، ص:143، ط:فاروقی کتب خانہ)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

 ”بعض فقہاء کے کلام سے اور توارث وتعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریج ہی سنت ہونا چاہیے،کما في السعایة: و رأیت کلامًا للشیخ... الخ ان حالات کو دیکھ کر فقہاءِ متأخرین کی عبارت یا موٴول ہوگی یا مرجوح، طوالع الانوار  شرح درمختار  میں شیخ محمد عابد نے اس کی تاویل کرتے ہوئے الصاقِ کعبین سے محاذاتِ کعبین مراد  لی ہے اور اس میں علامہ رحمتی کے قول سے استیناس بھی کرلیا ہے․․․ اور جن فقہاء نے اس کی تاویل کا ارادہ نہیں کیا ہے، وہ اس کو قولِ مرجوح اور زاہدی کے اَوہام میں درج کرتے ہیں ...“ الخ

(فصل ثانی واجبات الصلوۃ، ج:2، ص:144، ط:فاروقی کتب خانہ)

امدادالفتاوی میں ہے:

"حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے بھی ایک سوال کے جواب میں سعایہ کی تحقیق کو راجح قرار دیا ہے، سائل نے سوال میں زاہدی کے متعلق  النافع الکبیراور  الفوائد البهیة کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ”وہ فقہ میں عظیم المرتبت امام تھے؛ لیکن نقلِ روایات میں متساہل تھے، نیز وہ عقیدةً معتزلی تھے اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے "تنقیح الفتاویٰ الحامدیة"  میں لکھا ہے کہ زاہدی کی ”الحاوی“ روایاتِ ضعیفہ نقل کرنے میں مشہور ہے، جس کی وجہ سے ابنِ وہبان وغیرہ فرماتے ہیں کہ زاہدی کا جو قول دیگر فقہاء کے خلاف ہو اس کا اعتبار نہیں ...“ الخ

(سوال نمبر:201، ج:1، ص:535، ط:مکتبہ نعمانیہ)

امدادالاحکام میں ہے:

 ”امام طحاوی رحمہ اللہنے رکوع وسجود کے درمیان فاصلے کی سنیت کی تصریح فرمائی ہے۔“

(امداد الاحکام۲/۹۱-۹۲زکریا بک ڈپو دیوبند) 

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’الصاقِ کعبین رکوع و سجود میں جیسا درمختار میں ہے، کسی کتاب حدیث سے اس کا نشان معلوم نہیں ہوتا اور  چوں کہ اس کی سنیت حیزِ خفا میں ہے؛ لہٰذا متروک ہے۔ بعض پہلے علماء کو بھی اس میں تکرار ہوا ہے، بخاری کا الصاقِ کعاب باہم مقتدیوں کا مراد ہے اور اس سے محاذات مقصود ہے اور اتصال و تراص صفوف، اور  یہاں وہ بظاہر مراد نہیں۔“

(ملفوظات، ص:351،ط:ادارہ صدائے دیوبند)

 السعایہ فی کشف ما فی شرح الوقایہ میں ہے:

"و منہا الصاق الکعبین وذکرہ جمع من المأخرین وجمہور الفقہاء لم یذکروہ ولا أثر لہ فی الکتب المعتبرة کالہدایة وشروحہا: النہایة والعنایة والبنایة والکفایة وفتح القدیر وغیرہا والکنز وشرحہ للعینی وشرح النقایة لا لیاس زادہ والبرجندی والشمنی وفتاوی قاضی خان والبزازیة وغیرہا․․․․ وقال خیر المتاخرین شیخ مشائخنا محمد عابد السندی المدنی فی طوالع الأنوار شرح الدرالمختار قولہ والصاق کعبیہ أی حالة الرکوع قال الشیخ الرحمتی مع بقاء تفریج ما بین القدمین قلت لعلہ أراد من الالصاق المحاذاة وذلک یحاذی کل من کعبیہ الاٰخر فلا یتقدم أحدہما علی الاٰخر․․․ قلت لقد دارت ہذہ المسألة فی سنة اربع وثمانین بعد الألف المئتین بین علماء عصرنا فأجاب أکثرہم بأن الصاق الکعبین فی الرکوع والسجود لیس بمسنون ولا أثر لہ فی الکتب المعتبرة والقول الفیصل أن یقال ان کان المراد بالصاق الکعبین أن یلزق المصلی أحد کعبیہ بالآخر ولا یفرج بینہما کما ہو ظاہر عبارة الدرالمختار والنہر وغیرہما وسبق الیہ فہم المفتی ابی السعود أیضا فلیس ہو من السنن علی الأصح کیف وقد ذکر المحققون من الفقہاء أن الاولٰی للمصلی أن یجعل بین قدمیہ نحو أربعة أصابع ولم یذکروا أنہ یلزقہما فی حالة الرکوع والسجود وقال العینی فی البنایة نقلاً عن الواقعات ینبغی أن یکون بین قدمی المصلی قدر أربع أصابع الید لأنہ أقرب الی الخشوع والمراد من قولہ علیہ الصلوة والسلام الصقوا الکعاب بالکعاب اجماعہما انتہیٰ فہٰذا صریح فی أن المسنون ہو التفریج مطلقاً والا لقیدہ بحالة القیام وأن المراد بالصاق الکعب بالکعب الوارد فی الخبر غیر الزاقہما ویوٴیدہ ما أخرجہ أبوداود وصححہ ابن خزیمة وذکرہ البخاری تعلیقا عن النعمان بن بشیر قال رأیت الرجل منا یلزق کعبہ بکعب صاحبہ وفی رد المحتار نقلا عن فتاویٰ سمرقند ینبغی أن یکون بین القدمین مقدار أربع أصابع وما روی أنہم الصقو الکعاب بالکعاب أرید بہ الجماعة انتہی وان کان المراد بہ محاذاة احدی الکعبین بالاٰخر کما أبدع العلامة السندی فہو أمر حق ولا بعد فی حمل الالصاق علی المحاذاة فانہ جاء استعمالہ فی القرب ویوٴید عدم سنیة الزاق الکعبین والمعنی الأول أی ترک التفریج بینہما أنہ یلزم فیہ تحریک احدی الکعبین الی الأخری وتحریک عضو فی الصلوة من غیر ضرورة لیس بجائز عندہم․"

 (جلد۲/۱۸۰-۱۸۱ سہیل اکیڈمی، لاہور، پاکستان)

فتاوی شامی میں ہے؛

"(قول الشارح ویسن أن یلصق کعبیہ) قال الشیخ أبوالحسن السندی الصغیر فی تعلیقتہ علی الدر ہذہ السنة انما ذکرہا من ذکرہا من المتأخرین تبعا للمجتبیٰ ولیس لہا ذکر فی الکتب المتقدمة کالہدایة وشروحہا وکان بعض مشائخنا یری أنہا من أوہام صاحب المجتبی ولم ترد فی السنة علی ما وقفنا علیہ، وکأنہم توہموا ذلک مما ورد أن الصحابة کانوا یہتمون بسد الخلل فی الصفوف حتیٰ یضمون الکعاب والمناکب ولا یخفیٰ أن المراد ہنا الصاق کعبہ بکعب صاحبہ لا کعبہ مع کعبہ الاٰخر اھ قلت ولعل الشیخ أبا الحسن لحظ الی الاٰثار الواردة فی أن التراوح بین القدمین فی الصلاة مطلقاً أفضل من الصاقہما اھ"

(تقریرات رافعی، ج:1، ص:61، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144111200264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں