بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر اعضا رکھنے کی ترتیب


سوال

 نماز میں  جب رکوع سے سجدہ کرتے ہیں تو پہلے کیا چیز زمین پر رکھیں پیر یا ہاتھ؟ مہربانی فرما کر حدیث بھی بیان فرما دیجیے گا!

جواب

نماز میں سجدہ میں جانے اور سجدہ سے کھڑے ہونے کی کیفیت یہ ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے سب سے پہلے وہ عضو رکھے جو زمین سے زیادہ قریب ہے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے وہ عضو سب سے پہلے اٹھائے جو آسمان سے زیادہ قریب ہے، لہذا سجدہ میں جاتے ہوئے سب سے پہلے پاؤں کے گھٹنے رکھے پھر ہاتھ اور پھر چہرہ، اور چہرہ میں بھی پہلے ناک اور پھر پیشانی، اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے اس کے بالکل برعکس پہلے چہرہ اٹھائے پھر ہاتھ اور پھر گھٹنے، اور جمہور علماءِ کرام کا یہی مذہب ہے کہ سجدہ کرنے والا پہلے زمین پر گھٹنے رکھے گا اور پھر اس کے بعد ہاتھ رکھے گا، اور جب سجدہ سے اٹھے گا تو پہلے ہاتھ اٹھائے گا اور پھر گھٹنے۔

 حدیث مبارک میں ہے؛  حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب وہ سجدہ کرتے تھے  تو اپنے ہاتھوں سے پہلے پاؤں کے گھٹنے رکھتے تھے ، اور جب سجدہ سے اٹھتے تھے تو پاؤں کے گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"۔

"عن وائل بن حجر، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يضع ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه»". (سنن الترمذي 2/ 56)
ذکر علماؤنا في كيفية السجود والقيام منه: أن يضع أولاً ما كان أقرب إلى الأرض عند السجود ، وأن يرفع أولاً ما كان أقرب إلى السماء ؛ فيضع أولاً ركبتيه ثم يديه ثم وجهه، ويضع أنفه ثم جبهته، والنهوض بعكسه. وذهب أكثر أهل العلم إلى أن يضع الساجد ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه ...  قال أبو حنيفة والشافعي وأحمد بوضع اليدين بعد الركبتين في السجود ، وهو مذهب الثوري ، وإسحاق ، وعامة الفقهاء، وسائر أهل الكوفة وهي رواية عن مالك ، وبه قال عمر الفاروق وابن مسعود، ومن التابعين : مسلم بن يسار وأبو قلابة، وابن سيرين. وقال مالك بعكس ذلك ، وهو مذهب الأوزاعي ورواية عن أحمد.

واستدل الجمهور بحديث وائل بن حجر أنه قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يضع ركبتيه قبل يديه ، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه». وقد أخرج هذا الحديث الترمذي  وأبو داؤد وابن ماجه والنسائي وأحمد والدارمي وابن خزيمة وابن حبان وصححه، وابن السكن والدار قطني  والحاكم وصححه  على شرط مسلم، وسكت عليه الذهبي. وقال الترمذي : «هذا حديث حسن غريب، لا نعرف أحداً رواه غير شريك.» والشريك هو ابن عبد الله النخعي أبو عبد الله الكوفي القاضي روى له مسلم في صحيحه في المتابعات، كما ذكره الذهبي  في الميزان، (1۔446) والحافظ في التهذيب (4۔337) وأخرج له الأربعة، وصرحوا بأن تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة أي بعد قضائه بواسط، وسماع المتقدمين منه صحيح ليس فيه تخليط.

ورجح هذه الرواية الخطابي ، والبغوي ، والطيبي  ، وابن سيد الناس اليعمري بأنه أصح وأثبت ، ووجهه ابن حجر كما في "المرقاة" : قال ابن حجر: ووجه كونه أثبت أن جماعة من الحفاظ صححوه، ولا يقدح فيه أن في سنده شريكاً القاضي، وليس بالقوي؛ لأن مسلماً روى له، فهو على شرطه على أن له طريقين آخرين فيجبرهما". (مستفاد از معارف السنن (3/29) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں