بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدۂ سہو کا محل


سوال

نماز میں پہلا سلام پھیرنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے۔ احناف کے نزدیک سجدۂ سہو  پہلا سلام پھیرنے کے بعد کیا جاتا ہے تو وہ تو نماز ختم ہونے کے بعد ہوا، کیا یہ صحیح ہے؟ جو نمازی دیر سے جماعت کی نماز میں شامل ہوئے، وہ کیا کرے؟ یہاں عرب میں سلام نہیں پھیرا جاتا، بلکہ آخر میں سلام پھیر دیا جاتا ہے جو بظاہر زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

جواب

جن احادیثِ مبارکہ میں سجدۂ سہو کا سلام کے بعد کرنے کا ذکر ہے، احناف ان احادیث کی بنیاد پر سجدۂ سہو کا محل سلام کے بعد ہونے کے قائل ہیں۔ تاہم احناف کے اصولوں میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ سلام سے نماز اس طور پر ختم ہوتی ہے جو کہ سجدۂ سہو کرنے سے رکاوٹ نہیں بنتی؛ لہذا سلام کے بعد کے سجدے اس بات کی علامت بن جاتے ہیں کہ نمازی کی نماز پوری ختم نہیں ہوئی ہے، بالفاظِ دیگر اگر نماز ختم کرنے کی نیت سے سلام پھیرا جارہاہو تو وہ قاطعِ صلاۃ ہوتاہے، جب کہ سجدۂ سہو کے لیے پھیرا جانے والا سلام قطعِ صلاۃ کی نیت سے نہیں ہوتا۔

دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے (یعنی مسبوق) کے لیے یہ حکم ہے کہ امام کے ساتھ  سلام پھیرے  بغیر سجدۂ سہو میں شریک ہونا چاہیے، اس کے بعد جب امام التحیات کے بعد سلام پھیرے تو اپنی  بقیہ نماز پوری کرنی چاہیے۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 173):
"ولنا حديث ثوبان - رضي الله عنه - عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل سهو سجدتان بعد السلام»، من غير فصل بين الزيادة والنقصان. وروي عن عمران بن الحصين والمغيرة بن شعبة وسعد بن أبي وقاص - رضي الله عنهم - أن النبي صلى الله عليه وسلم سجد للسهو بعد السلام، وكذا روى ابن مسعود وعائشة وأبو هريرة - رضي الله عنهم -، وروينا عن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من شك في صلاته فلم يدر أثلاثًا صلى أم أربعًا فليتحر أقرب ذلك إلى الصواب، وليبن عليه، وليسجد سجدتين بعد السلام»".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 173):
"وأما قوله: إن الجبر لايتحقق إلا حال قيام أصل الصلاة، فنعم، لكن لم قلتم: إن سلام من عليه السهو قاطع لتحريمة الصلاة؟ وقد اختلف مشايخنا في ذلك، فعند محمد وزفر لايقطع التحريمة أصلًا فيتحقق معنى الجبر، وعند أبي حنيفة وأبي يوسف لايقطعها على تقدير العود إلى السجود أو يقطعها، ثم يعود بالعود إلى السجود فيتحقق معنى الجبر". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں