بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ تلاوت کا حکم


سوال

آیت سجدہ پر سجدہ کا کیا حکم  ہے، اگر ان کو کرنا چھوڑ دیا جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب

آیتِ سجدہ  تلاوت  کرنے یا سننے کی صورت میں سجدہ کرنا واجب ہے، اور اس کو بالکل چھوڑدینا گناہ ہے،اور یہ ادا کے بغیر ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا ۔

باقی اگر  نماز میں  آیتِ سجدہ تلاوت کی تو نماز کے اندر ہی اس کو ادا کرنا واجب ہے،  نماز کے بعد یہ ساقط ہوجاتا ہے، البتہ ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ ہوگا جس پر توبہ واستغفار لاز م ہے،  اور نماز کے علاوہ عام حالت میں تلاوت کرتے ہوئے آیتِ سجدہ تلاوت کی تو افضل اور بہتر یہی ہے کہ جیسے ہی آیتِ سجدہ تلاوت کرے  اسی وقت سجدہ تلاوت کرلے، اور اگر یہ نہ ہوتو تلاوت ختم کرنے کے بعد کرلے، بلاکسی ضرورت کے قرآن مکمل کرکے اکٹھے چودہ سجدے کرنا مناسب نہیں ہے، تاہم اگر کرلیے تو سجدے ادا ہوجائیں گے۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 132)
"والسجدة واجبة في هذه المواضع على التالي والسامع سواء قصد سماع القرآن أو لم يقصد، كذا في الهداية".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 129)
"وفي التجنيس: وهل يكره تأخيرها عن وقت القراءة ذكر في بعض المواضع: أنه إذا قرأها في الصلاة فتأخيرها مكروه، وإن قرأها خارج الصلاة لايكره تأخيرها. وذكر الطحاوي: أن تأخيرها مكروه مطلقاً، وهو الأصح اهـ. وهي كراهة تنزيهية في غير الصلاتية؛ لأنها لو كانت تحريميةً لكان وجوبها على الفور وليس كذلك".
الفتاوى الهندية (1/ 135)
"وفي الغياثية: وأداؤها ليس على الفور حتى لو أداها في أي وقت كان، يكون مؤدياً لا قاضياً، كذا في التتارخانية. هذا في غير الصلاتية، أما الصلاتية إذا أخرها حتى طالت القراءة تصير قضاءً ويأثم، هكذا في البحر الرائق"
.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں