بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ستر(۷۰) دن کا حمل ضائع ہونے کے بعد تیس(۳۰) دن تک خون آنے کی صورت میں حیض و نفاس کی مدت کا حکم


سوال

70دن کا بچہ ضائع ہوجانے کے بعد نفاس کا وقت کتنے دن تک ہے؟  اور اگر 30 کے بعد بھی پاکی نہیں آرہی ہو تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاھر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفساء( نفاس والی) ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو  کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے یعنی عورت نفساء (نفاس والی) نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے  کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے تقریباً چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو حمل ستر (۷۰) دن بعد ضائع ہوگیا ہے، اس حمل کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا،  یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس  کا ہوگا،  بلکہ حمل کے ضائع ہونے کے بعد تیس (۳۰) دن تک آنے والے خون میں سے اتنے دن حیض کے شمار ہوں گے جو حمل سے پہلے حیض کی عادت تھے، اور باقی دن استحاضہ کے ہوں گے۔

خون مستقل جاری رہنے کی صورت میں  استحاضہ کی مدت اور  استحاضہ کے بعد دوبارہ حیض  شروع ہونے کا حکم سابقہ  حیض اور طہر کی عادت کی مکمل تفصیل معلوم ہونے کی صورت میں ہی بتایا جاسکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 302):

"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور.

 (قوله: فليس بشيء) قال الرملي في حاشية المنح بعد كلام: وحاصله: أنه إن لم يظهر من خلقه شيء فلا حكم له من هذه الأحكام (قوله والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء ... (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثاً وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثاً ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثاً ولاتقدمه طهر تام ح.

(قوله: ولو لم يدر حاله إلخ) أي لايدري أمستبين هو أم لا؟ بأن أسقطت في المخرج واستمر بها الدم، فإذا كان مثلاً حيضها عشرة وطهرها عشرين ونفاسها أربعين، فإن أسقطت من أول أيام حيضها تترك الصلاة عشرةً بيقين؛ لأنها إما حائض أو نفساء ثم تغتسل وتصلي عشرين بالشك لاحتمال كونها نفساء أو طاهرةً ثم تترك الصلاة عشرةً بيقين؛ لأنها إما نفساء أو حائض، ثم تغتسل وتصلي عشرين بيقين لاستيفاء الأربعين، ثم بعد ذلك دأبها حيضها عشرة وطهرها عشرون، وإن أسقطت بعد أيام حيضها فإنها تصلي من ذلك الوقت قدر عادتها في الطهر بالشك، ثم تترك قدر عادتها في الحيض بيقين. وحاصل هذا كله أنه لا حكم للشك، ويجب الاحتياط. اهـ من البحر وغيره، وتمام تفاريع المسألة في التتارخانية، ونبه في البدائع على أن في كثير من نسخ الخلاصة غلطاً في التصوير من النساخ". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں