بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ستائسویں شب ختم قرآن کریم کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں ،علما و مفتیان اس مصلے کے بارے میں، کہ کسی عام عوامی آدمی کا یے کہناتراویح میں ختم قرآن کے لئے تاریخ مخصوص کرنا ٢٧ یا  ٢٩، یہ بدعت ہے.اور قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں". کیا اس طرح کہنا ٹھیک ہے؟. کیا تراویح میں ختم قران کے لئے طاق رات کا انتخاب اور استحباب بدعت ہے؟ کیا طاق رات کو ترک کر کے ٢٦ یا ٢٤ کو ختم کرانا ثواب سے محرومی نہیں؟ 

جواب

اگر 27 تاریخ یا 29 تاریخ کو ختم قرآن کریم اس نیت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اس تاریخ کے علاوہ تراویح میں ختم قرآن کریم ٹھیک ہی نہیں، تو اس نیت رکھنے کے باعث یہ عمل بدعت ہو گا۔لیکن27 یا 29 رات کو ختم قرآن کرنے میں یہ نیت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ چونکہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں کے بارے میں شب قدر کے امکان کے بارے میں اور خصوصا ستائسویں شب کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں، اس لیے کسی طاق رات میں یا ستائسویں کی رات میں قرآن کریم اس نیت سے ختم کرنا کہ طاق رات میں شب قدر مل جائے اور ثواب بڑھ جائے، تو یہ عمل  مستحب ہوگا۔ البتہ اس سے یہ بات کسی طرح ثابت نہیں ہوتی کہ طاق راتوں کے علاوہ ختم قرآن کرنا ن جائز ہو یا نفس ختم ثواب کا باعث نہ ہو۔

 حاصل یہ ہے کہ ستائیسویں یا انتیسوٰیں وغیرہ  طاق راتوں میں فضیلت سمجھ کر ختم قرآن کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ راتیں فضیلت والی ہیں اور ان کی فضیلت نصوص سے ثابت ہے اس لیے اس عمل کو بدعت نہیں کہا جاسکتا۔


فتوی نمبر : 143610200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں