زید ایک مسلم ، سنی ، مدرس ہے اور مدرسے میں بچوں کو پڑھاتا ہے، ایک مرتبہ بابِ طلاق پڑھاتے ہوئے زید نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے یہ جملہ کہا مثال کے طور پر: "میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی" تو کیا محض مذکورہ جملہ سے طلاق واقع ہو جائے گی؟ اگر ہاں تو کیوں؟ اور اگر نہیں تو کیوں ؟
کتاب سے مسئلہ پڑھنے یا پڑھانےکی صورت میں جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت (کسی کی گفتگو نقل کرنے کے طور پر) ہوتے ہیں، یا بطور مثال سمجھانے کے لیے ہوتے ہیں، ان سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے کے طلاق کے الفاظ نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لہذا اس میں شک اور وسوسہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (9/ 183):
"لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ، وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي لَا تَطْلُقُ ، وَفِي مُتَعَلِّمٍ يَكْتُبُ نَاقِلًا مِنْ كِتَابِ رَجُلٍ قَالَ: ثُمَّ يَقِفُ وَيَكْتُبُ : امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَكُلَّمَا كَتَبَ قَرَنَ الْكِتَابَةَ بِاللَّفْظِ بِقَصْدِ الْحِكَايَةِ لَا يَقَعُ عَلَيْهِ".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104200378
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن