زید کی دکان میں چار لاکھ کا سامان ہے اور زکاۃ ادا کرنا چاہتا ہے، سوال یہ ہے کہ وہ سامان بیچ کر زکاۃ دے یا پھر حساب لگا کر؟ اور اگر حساب لگائے تو کس دام سے بیچنے یا خریدنے کا؟
سامانِ تجارت کی زکاۃ اس سامان کی قیمتِ فروخت کے حساب سے واجب ہوگی، یعنی اس سامان کی موجودہ بازاری قیمت (مارکیٹ ریٹ) پر واجب ہوگی۔ مارکیٹ ریٹ سے مراد اس سامان کی متوسط قیمت ہے۔ لہذا دکان میں جوسامان موجود ہے، سال مکمل ہونے پر اسی بازار میں رائج قیمت کو دیکھ کراس سامان کی قیمت کا اندازا لگایا جائے گا اور جو قیمت بنے گی اس کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔ حاصل یہ ہے کہ جو سامان صاحبِ نصاب شخص کے پاس فروخت کے لیے موجود ہو اور زکاۃ کی ادائیگی کا دن آجائے تو اس دن بازارمیں اس سامان کی جو قیمتِ فروخت بنے گی اس قیمت کی زکاۃ اداکرے گا۔
قال في الدر:
"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليها عنده وعندهما". (ردالمحتار ، باب زكاة الغنم:٢/ ٢٨٦ سعيد) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201541
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن