بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سالی کو زکات دینا


سوال

میری   سالی جو  یتیم ہے اور میرے گھر میں رہتی ہے، میں اس کی کفالت کرتا ہوں، کیا اس سالی کو اپنی زکات دے سکتا ہوں؟

جواب

اگر آپ کی سالی مستحقِ  زکات ہے تو آپ کے لیے انہیں اپنی زکات کی رقم دینا جائز ہے،مستحق  ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کےپاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس مالیت کا ضروریاتِ اصلیہ و استعمال سے زائد کسی قسم کا ما ل   /سامان موجود نہ ہو  اور   وہ  سید/ عباسی   نہ   ہوں۔

اگر آپ کی سالی کا کھانا پینا آپ لوگوں کے ساتھ ہے اور وہ زکات کی رقم مشترکہ کھانے میں استعمال کرے  جس سے آپ کا بھی فائدہ ہو تو اس میں کراہت ہوگی، لہذا ایسی صورت میں انہیں بتادیا جائے کہ فطرانے یا زکات کی رقم وہ خود استعمال کرے، مشترکہ خرچ میں شامل نہ کرے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):

"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه".

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 287):

"في «العيون» : رجل يعول أخته أو أخاه أو عمه، فأراد أن يعطيه الزكاة إن لم يكن فرض عليه القاضي نفقته جاز؛ لأن التمليك من مولاه بصفة القربة يتحقق من كل وجه، فيتحقق ركن الزكاة، وإن كان القاضي فرض عليه نفقته، إن لم يحتسب المؤدى إليه نفقته جاز أيضاً، وإن كان يحتسب لا يجوز؛ لأن هذا أداء الواجب بواجب آخر. وقال في «الحاوي» : قال أبو بكر الإسكاف: لو دفع الزكاة إلى أخته، وهي في عياله جاز، وكذلك لو فرض الحاكم عليه نفقتها جاز من الزكاة، والنفقة جميعاً، قال به، وقيل: لم يجز بعد الفرض. وفي «المنتقى» عن الحسن بن زياد عن أبي حنيفة: رجل فرض عليه القاضي نفقة قرابته، وأعطاه من زكاة ماله جاز. وكذلك إذا نوى أن تصير  النفقة التي ينفق عليهم بأمر القاضي من زكاته أجزأه، وذكر عن الحسن بن مالك عن أبي يوسف: إن نوى بما يعطيهم ما فرض القاضي عليه لم يجز، ووجهه ما ذكرنا أن هذا أداء الواجب بواجب آخر، ووجه ما روي عن أبي حنيفة: أن بعد فرض القاضي ما تغيرت ماهية النفقة، فإنها صلة شرعاً، فلا يمنع وقوعها عن الزكاة، ألا ترى أن على أصله من اشترى أباه ناوياً عن كفارة يمنه أجزأه عن الكفارة، وهذا الشراء واجب صلة للقرابة ثم وجوبه بجهة الصلة لم يمنع وقوعه بجهة الكفارة، كذا ههنا".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں