میری دو سالیاں ہیں، جن میں سے ایک سالی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اپنے باپ کے گھر رہتی ہیں، ان کے شوہر سید ہیں اور صاحبِ نصاب نہیں ہیں اور میری سالی، ساس اور سسر بھی صاحبِ نصاب نہیں ہیں، یہ لوگ زکاۃ لیتے ہیں۔ اگر میں اپنے مال اور بیوی کے زیور کی زکاۃ اپنی سالی کو دوں اور وہ اس زکاۃ کے پیسوں سے گھر کے لیے فریج خریدے تو کیا اس فریج کو گھر کے باقی لوگ بھی استعمال کرسکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی سالی مستحقِ زکاۃ ہے (یعنی اس کی ذاتی ملکیت میں بنیادی ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو) نیز آپ اور آپ کی بیوی کے ان کے ساتھ مشترک منافع بھی نہیں ہیں (یعنی خرچہ مشترک نہیں ہے، اور جو چیز اسے دیں گے وہ لوٹ کر آپ کے پاس نہیں آئے گی) تو آپ کا اور آپ کی بیوی کا اسے زکاۃ دینا جائز ہے۔ نیز جب آپ کی سالی اس رقم کی مالک بن جائے گی تو وہ اس رقم سے فریج خرید سکتی ہے اور اس کے شوہر سمیت تمام گھر والے اس کو استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):
"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200765
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن