بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سالی سے زنا کے بعد استبراء کے واجب ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ایک اشکال کا جواب


سوال

 آپ کے یہاں سے صادر ہوئے ایک فتوے کے بارے میں ایک صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنی سالی سے زنا کرلیا تو بیوی ایک مہینے تک رکے گی علامہ شامی نے اس پر اعتراض کیا ہے تو اس اعتراض کا مدلل جواب دیں؟ آپ کہتے ہیں کہ رکے گا بیوی سے جماع کرنے سے ایک ماہ واری تک،علامہ شامی کہتے ہیں کہ بیوی کو روکنے کی کیا ضرورت ہے ان پر علامہ شامی نے اعتراض کیا ہے جواب حوالے کے ساتھ مطلوب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سالی سے زنا کرناانتہائی قبیح فعل، اور کبیرہ  گناہ کا ارتکاب  ہے، اس پر توبہ واستغفار لازم ہے، لیکن  سالی سے زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی، لیکن اس  کے استبراء یعنی  (اس ہمبستری کے بعد) ایک حیض گزرنے تک یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لا تحرم عليه امرأته

(قوله: وفي الخلاصة إلخ) هذا محترز التقييد بالأصول والفروع وقوله: لا يحرم أي لا تثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لا تحرم حرمة مؤبدة، وإلا فتحرم إلى انقضاء عدة الموطوءة لو بشبهة قال في البحر: لو وطئ أخت امرأة بشبهة تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة، وفي الدراية عن الكامل لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضة۔ واستشكله في الفتح ووجهه أنه لا اعتبار لماء الزاني ولذا لو زنت امرأة رجل لم تحرم عليه وجاز له وطؤها عقب الزنا. اهـ.(3/ 34، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

علامہ شامی رحمہ اللہ نے  آخر میں  فتح سے یہ اشکال نقل کیا ہے کہ زانی کے پانی کا اعتبار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص منکوحہ سے نکاح کرلے تو  اس کا شوہر اس کے بعد فورا اس سے ہم بستری کرسکتا ہے۔

دراصل اس مسئلے  میں کہ مزنیہ کا استبراء واجب ہے یا مستحب ؟  تو احناف کے ہاں اس مسئلے میں دو قول ملتے ہیں ، ایک قول شامی میں نقل کیا گیا ہے کہ استبراء مستحب ہے ، یعنی :

 اذا زنی باخت امرأته او بعمتھا أو بنت اخیھا أو اختھا بلا شبھة فان الافضل ان لایطاء امراته حتی تستبرأ المزنیة۔۔۔۔الخ ۔شامی ج:۶،ص:۳۸۰ باب الاستبراء (طبع سعید)۔

اور یہی قول جامع الرموز للقھستانی، کتاب الکراھیۃ ،جج:۲،ص:۳۱۴ (طبع سعید)میں بھی مذکور ہے ۔(وکذا فی شرح الملتقی ،ص:۲۱۱ علی مجمع الانھار )۔

مگر ایک دوسرا قول استبراء کے واجب ہونے کا بھی ہے ، جو درایۃ عن الکامل کی عبارت : وفي الدراية عن الكامل لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضة، کے علاوہ النتف فی الفتاویٰ ، کتاب النکاح ، ص:۱۸۹ (طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت) میں یوں مذکور ہے :

والخامس عشر اذا وطأ ذات محرم من امرأته ممن لا يحرم عليه بزنا فانه لا يطأ امرأته حتى يستبرئ الموطوءة بحيضة لانه لا يحل له رحمان محرمان فيهما ماؤه۔ (النتف في الفتاوى للسغدي (1 / 294)

نيز مجمع الانهر ميں  علامه عبدالرحمن شیخی زادہ نے  صرف درایہ عن الکامل کی عبارت ذکر کی ہے ، اس پر کوئی اشکال وغیرہ ذکر نہیں فرمایا  اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے ہاں ایک قول استبراء کے واجب ہونے کا بھی ہے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 325):

وفي الدراية لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى بحيضة 

نیز  مصنف ابن ابی شیبہ میں  حضرت قتادہ سے بھی یہی منقول ہے، اور حنابلہ کا مسلک بھی یہی ہے، اور بالخصوص فروج کے معاملہ میں احتیاط کا پہلو مد نظر رکھا جاتا ہے، اس لیے ہمارے اکابرین نے اسی پر فتوی دیا ہے کہ احتیاطا ایک حیض کا  استبرا واجب ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة (3 / 491):

"حدثنا أبو بكر قال: نا سعيد: قال قتادة: «لا يحرمها ذلك عليه، غير أنه لا يغشى امرأته، حتى تنقضي عدة التي زنى بها» "

الفقہ الاسلامی وأدلتہ ،ج:۷،ص:۱۶۵ (طبع دار الفکر دمشق):

"وان زنی الرجل بامرأة فلیس له أن یتزوج بأختھا حتی تنقضی عدتھا وحکم العدة من الزنا والعدة من وطء الشبھة كحكم العدة من النکاح"

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

سالی  سے زنا سے زانی شخص پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جب تک مزنیہ کو ایک حیض نہ آئے  اس وقت تک اس کو منکوحہ بیوی سے الگ رہنا واجب ہے۔(4/560، ط: جمعیت پبلیشرز)۔

فقط والله اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144111201249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں