بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سالانہ، داخلہ اور امتحانی فیس کا حکم


سوال

اسکولوں میں رائج سالانہ اور داخلہ فیس لینے کا شرعی حکم کیا ہے؟ تنخواہیں، امتحانات اور دیگر متفرق اخراجات پورے نہ ہوتے ہوں تو کیا داخلہ کار روائی اور اس کی خدمات کے عوض داخلہ فیس لی جاسکتی ہے؟ اور امتحانات اور سال کے دوران دیگر اخراجات کی مد میں سالانہ فیس وصول کی جاسکتی ہے؟ یا امتحان کے نام سے ہی امتحانی فیس مقرر کی جائے؟

جواب

محض داخلہ فیس لینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ کسی چیز کے عوض میں نہیں ہے، ہاں اگر  داخلہ کی کار روائی، امتحان، فارم اور عملہ کی خدمات کے عوض اس کام کی جتنی عموماً اجرت بنتی ہے اتنی ہی لے جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

سالانہ فیس سے مراد  یہ ہو کہ ہر مہینہ بچوں کو تعلیم دینے کے عوض فیس  وصول کی جائے یا اسی کو سالانہ طور پر وصول کیا جائے تو یہ جائز ہے۔  اور اگر ماہ وار فیس وصول کی جارہی ہو یعنی ہر ماہ بچے کی پڑھائی کی مقررہ فیس ہے تو ایسی صورت میں الگ  سالانہ فیس لینا درست نہیں ہے۔

البتہ امتحانات کے اخراجات کے لیے امتحانی فیس وصول کی جاسکتی ہے بشرط یہ ہے کہ شروع معاہدہ میں یہ نہ ہو  کہ ماہ وار فیس میں امتحانی اخراجات بھی شامل ہوں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں