بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ بیوی کو اپنے گھر میں رہائش دینے کا حکم


سوال

 میں نے بیوی کو طلاق دی تھی اب مسئلہ یہ ہے کہ میری سابقہ بیوی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی گزارسکے وہ التجا کررہی ہے، مجھ سے رہنے کا ٹھکانہ مت چھینو، اور میں بھی خدا ترس آدمی ہوں، سوچتاہوں کہیں زیادتی نہ کر بیٹھوں۔

میرے اب اُس کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں ہیں،  میرے لیے کیا حکم ہے؟  راہ نمائی فرما دیں واضح کر دوں کہ طلاق اس کی مرضی پردی تھی!

جواب

اگر  آپ بیوی کو تین طلاق دے چکے ہیں، یا تین سے کم طلاق دی ہیں لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے رجوع کا بالکل ارادہ نہیں ہے تو  بہتر یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اسے کرایہ پر مکان لے کر دے دیجیے، یا آپ کے گھر میں اگر اتنی گنجائش ہے کہ دیوار کھینچ کر بالکل باپردہ رہائش کا انتظام ہوسکتاہے، جہاں آپ کی آمد و رفت نہ ہو، اور نہ ہی وہ آپ کی رہائش گاہ کی طرف آئے تو اس طرح رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔

اگر الگ مکان کرایہ پر نہیں دے سکتے اور گھر میں بھی اتنی گنجائش نہیں ہے، لیکن آپ کے گھر میں آپ کے ساتھ  سنجیدہ اور پختہ عمر  کی ایسی خواتین (مثلاً والدہ ، ہم شیرہ  وغیرہ) رہائش پذیرہیں جن کی وجہ سے آپ کو اطمینان ہے کہ سابقہ بیوی کو اپنے گھر میں رکھنے کے باوجود آپ دونوں (دن یا رات میں کسی وقت بھی) فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے اور پردے کا مکمل اہتمام بھی کیا جائے، کھانے پینے اور نشست و برخاست میں کسی قسم کے اختلاط کی نوبت نہ آئے تو  آپ کے لیے اپنی سابقہ بیوی کو اپنے گھر میں کسی الگ کمرے میں رہائش دینے کی گنجائش ہوگی۔ اور  اگر آپ کے گھر میں کوئی تیسرا نہیں ہے تو پھر سابقہ بیوی کو اکیلے اپنے ساتھ گھر میں ٹھہرانے کی صورت میں فتنے کا قوی اندیشہ ہونے کی وجہ سے اسے اپنے گھر میں ٹھہرانا جائز نہیں ہوگا۔

اگر آپ نے تین طلاقیں نہیں دیں اور اس عورت کا کوئی سہارا بھی نہیں ہے، اور طلاق رجعی ہونے کی صورت میں عدت ختم نہیں ہوئی تو  آپ کے لیے مشورہ یہ ہے کہ رجوع کرلیجیے، اور عدت ختم ہوچکی ہے تو تجدیدِ نکاح کرلیجیے، اس طرح بے سہارا عورت کا طلاق لے کر الگ رہنا یا ایک رہائش گاہ میں رہنا (اگرچہ مذکورہ تفصیل کا خیال رکھاجائے) شرعاً مناسب نہیں ہے،  نکاح برقرار رہنے کی صورت میں میاں بیوی کا وقتی طور پر یا کچھ مدت کے لیے تعلقات قائم نہ کرنا گناہ نہیں ہے، لیکن نکاح میں نہ ہونے کے باوجود ایک رہائش گاہ میں رہنا بہر حال فتنے کے اندیشے سے خالی نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں