بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زیرِناف بال اگر چھوٹے ہوں تو چالیس دن پورے ہونے کے باوجود کاٹنا ضروری ہوگا / زیرِناف میں پاخانے کے مقام کے بال بھی شامل ہیں


سوال

1.خواتین عام طور پر کریم سے زیر ناف بال صاف کرتی ہیں یا اسے  اکھاڑ لیتی ہیں جس وجہ سے 40 دن کے بعد بھی بال با لکل ہلکے ہوتے ہیں تو اس صورت میں بھی گناہ ہوگا،  اگر صاف نہ کیے جائیں 40 دن سے پہلے؟

2.  کیا مردوں کوپاخانے کے مقام کے اردگرد بال بھی صاف کرنے چاہییں؟ کیوں کہ بہت سے فقہاء صرف سامنے کی شرم گاہ کے بال صاف کرنے کا کہتے ہے، جس کے لیے حدیث میں ’’عانہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، جس سے مراد صرف سامنے کی  شرم گاہ اور اس کے آس پاس بال ہیں۔

جواب

1.کریم سے زیرناف بال صاف کرنے کے باوجود جب ہلکے ہلکے بال ہوتے ہیں تو چالیس دن پورے ہونے سے پہلے پہلے صاف کرنا ضروری ہے ورنہ مکروہ ہوگا۔

2. پاخانے کے مقام کے چاروں طرف جو بال ہوتے ہیں وہ بھی زیرناف کے حکم میں ہے،لہذا اس کو بھی صاف کرنا ضروری ہے۔ جیساکہ فتاوی شامی میں ہے:

"والعانة الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة ومثلها شعر الدبر بل هو أولى بالإزالة لئلا يتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر."

(كتاب الحج،فصل في الإحرام وصفة المفرد، 2/ 481، ط: سعيد)

حاشية الطحطاوی میں ہے:

"ثم العانة هي الشعر الذي فوق الذكر وحواليه وحوالي فرجها ويستحب إزالة شعر الدبر خوفا من أن يعلق به شيء من النجاسة الخارجة فلا يتمكن من إزالته بالاستجمار."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ص:527، ط: دارالكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وكره تركه) أي تحريما لقول المجتبى ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك روى مسلم عن أنس بن مالك «وقت لنا في ‌تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة» وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ"

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع،6/ 407،  ط: سعيد)

’’مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر‘‘ میں ہے:

"وفي القنية ويستحب حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة فإن لم يفعل ففي خمسة عشر يوما مرة ولا عذر في تركه وراء أربعين."

(كتاب الكراهية، فصل في المتفرقات، 2/ 556، ط: دار إحياء التراث العربي)

حجة الله البالغة میں ہے:

"والجملة في ذلك أن بعض الشعور النابتة من جسد الإنسان يفعل فعل الأحداث في قبض الخاطر، وكذا شعث الرأس واللحية وليرجع الإنسان في ذلك إلى ما ذكره الأطباء في الشرى والحكة وغيرهما من الأمراض الجلدية أنها تحزن القلب وتذهب النشاط."

(القسم الثاني،في بيان أسرار ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم تفصيلا، خصال الفطرة ومأ يتصل بها، 1/ 309، ط: دارالجيل بيروت)

اس کی تشریح کرتے ہوئے مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب نور اللہ مرقدہ ’’ رحمۃ اللہ الواسعۃ‘‘  میں لکھتے ہیں:

’’ جسم میں کچھ بال ایسے اُگتے ہیں جو حدث (نجاستِ حکمی) کا کام کرتے ہیں یعنی ان سے دل منقبض ہوتا ہے اور سرور کافور ہوجاتا ہے، یہ مونچھ، بغل اور زیرِناف کے بال ہیں۔ ناخن بڑھنے کا بھی یہی حال ہے، اسی طرح سر اور ڈاڑھی کا پراگندہ ہونا بھی طبیعت کی کبیدگی کا باعث ہوتا ہے، اس لیے ان کا کاٹنا اور سنوارنا مامور بہ ہوا۔ اطباء نے جِلدی امراض پتی اچھلنے اور خارش وغیرہ کے بیان میں یہ بات لکھی ہے کہ ان سے دل مغموم ہوتا ہے اور نشاط ختم ہوتا ہے، یہ بیماریاں بھی وہ ہیں جن کے آثار جسم پر نمودار ہوتے ہیں اور حدث کا کام کرتے ہیں، اسی طرح کھال پر نمودار ہونے والے مذکورہ بال وغیرہ بھی حدث کا کام کرتے ہیں، پس ان کا ازالہ بابِ طہارت سے ہے۔‘‘

(3/ 243 ، ط: زمزم پبلشرز کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں