بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ناف بالوں کی صفائی کی مدت


سوال

اہلِ سنت, اہلِ حدیث اور  شیعہ کے مطابق زیرِ ناف بالوں کی کتنے دن میں صفائی ضروری ہے؟

جواب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں ۔ ختنہ ، زیرِ ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا ۔ بعض دوسری حدیثوں میں ان چیزوں کو انبیاء و مرسلین کی سنت اور ان کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ اور چوں کہ یہ انسانی فطرت کے تقاضے ہیں اس لیے ہونا بھی یہی چاہیے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طریقہ اور یہی ان کی تعلیم ہو ۔ ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی ہے جو بلاشبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔لہٰذا زیرِ ناف بالوں کی صفائی بھیامورِفطرت میں سے ہے اورمسنون یہ ہےکہ ہر ہفتے میں جمعہ کے دن  جسمانی اصلاح و صفائی کا یہ کام کیا جائے، دو ہفتوں میں ایک بار کرنا جائز ہے اور آخری حد۴۰دن تک کی ہے، چالیس دن سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہِ تحریمی اور گناہ کا باعث ہے۔

یہ   اہل السنۃ و الجماعۃ کا مسلک ہے، باقی اہلِ حدیث یا اہلِ تشیع حضرات کا مسلک ان ہی سے پوچھ لیجیے۔

حدیث شریف میں ہے:

صحيح مسلم (1/ 221):

" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْفِطْرَةُ خَمْسٌ - أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ - الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ»".

صحيح مسلم (1/ 222):

" عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: - قَالَ أَنَسٌ -: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»".

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ ۴۰ روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 406):

"(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين، مجتبى.

 (قوله: وكره تركه) أي تحريماً لقول المجتبى: ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك: روى مسلم عن أنس بن مالك: «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لانترك أكثر من أربعين ليلةً». وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں