بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ناف بال کاٹنے کی حد کا بیان اور اس حد سے زیادہ بال کاٹنے کا حکم


سوال

زیرِ ناف بالوں کو صاف کرنے کی شرعی حد کیا ہے؟  اور کیا اس حدِ زائد بھی صاف کر سکتے ہیں؟  آسان لفظوں میں اور تفصیل سے سمجھا دیں!

جواب

مثانہ سے نیچے  پیڑوں  کی ہڈی  سے لے کررانوں کی جڑوں تکاور پیشاب پاخانہ کی جگہ کے اِردگرد زیرِناف بال مونڈنے چاہییں، رانوں اور سرین کے بالوں پر جہاں نجاست لگنے کا زیادہ امکان رہتاہے وہاں تک بال کاٹیں، اس کے علاوہ رانوں کے بال کاٹنے کی ضرورت نہیں۔  مرد کے لیے اس حد سے زائد ٹانگوں (یعنی پنڈلیوں اور گھٹنے سے اوپر حصے) کے بال کاٹنا جائز تو ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ بلا ضرورت نہ کاٹے۔ فتاویٰ ہندیہ کی درج ذیل عبارت کو مدنظر رکھ کر بعض جید مفتیانِ کرام کی رائے یہ ہے کہ زیرِ ناف بال ناف کے متصل نیچے سے ہی صاف کرلینے چاہییں۔ 

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".  (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها (5/358)

"وأما الاستحداد فهو حلق العانة سمي استحداداً؛ لاستعمال الحديدة وهي الموسى، وهو سنة، والمراد به نظافة ذلك الموضع، والأفضل فيه الحلق، ويجوز بالقص والنتف والنورة، والمراد بالعانة: الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذاك الشعر الذي حوالي فرج المرأة". (شرح النووي علی مسلم، کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة (3/148) ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلا يتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر". (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، فصل في الإحرام و صفة المفرد (2/481) ط: سعیدفقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں