بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زیر تعمیر پلازہ میں ایڈوانس بکنگ کرانا جائز ہے؟


سوال

پلازہ بن رہا ہو، لیکن ابھی پلازہ کی تعمیر مکمل نہ ہوئی ہو، صرف اس کا ڈھانچہ تیار کیا گیا ہو اور کوئی شخص اس میں کرایہ پر اپنے لیے کوئی جگہ لیتا ہو اور فی الوقت اس میں ایڈوانس بکنگ کروائی جارہی ہے تو کیا تعمیر مکمل ہونے سے قبل یہ ایڈوانس بکنگ کروانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

کسی  پلاٹ پر پلازہ کا منصوبہ بناکر دوسرے لوگوں کو فروخت کرنے میں یہ بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اگر اس پلاٹ میں ابھی تک پلازہ بنا نہیں ہے تو اس کی دکانیں یا مکانات جو صرف نقشے کی حد تک ہیں اس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ جو چیز ملکیت میں نہ ہو اور معدوم ہو اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جواز  کی دو صورتیں ہیں:

(1) ایک یہ ہے کہ جو مکان یا دکان لوگوں کو فروخت کی جارہی ہو   اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچا  بن چکا ہو تو اس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

(2) جس دکان یا مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور چوتھی یا پانچوں منزل کی دکانیں یا مکانات بیچ رہے ہیں تو یہ بیع جائز نہیں ہے، اس صورت میں وعدۂ بیع کیا جاسکتا ہے، یعنی صرف بکنگ کی جاسکتی ہے   کہ مثلاً   فلاں مکان فلاں کو فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لینا جائز ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

(4/ 516، كتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطى،  ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں