ایک شخص کی اپنی گاڑی ہے اور کوئی گاہک آتا ہے اس سے کرائے پر جانے کی بات کرتا ہے، اور گاڑی کا مالک گاہک سے بارہ سو روپے میں بات کرکے تیار ہوجاتا ہے، لیکن پھر گاڑی کا مالک دوسری گاڑی والے سے ہزار روپے میں بات کردیتا ہے. گاہک سے بارہ سو روپے لیے اور اگلی گاڑی والے کو ہزار دئیے اور دو سو روپے خود رکھ لیے. کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر گاڑی والے اور پسینجر کی صرف یہ بات ہوئی تھی آپ کو بارہ سو روپےمیں مقررہ جگہ پہنچا دیا جائے گا، گاڑی کی تعیین نہیں ہوئی تھی ، تو اس صورت میں گاڑی والا خواہ اپنی گاڑی میں لے جائے یا کسی اور گاڑی میں دونوں صورتوں میں وہ بارہ سو روپے کا حق دار ہوگا، اور اس کے لیے آگے گاڑی والے سے کم کرایہ میں بات طے کرکے اپنی اجرت رکھنا جائز ہوگا، اگر گاڑی والے نے خود لے جانے کا کہا تھا تو اس صورت میں پسینجر کی رضامندی کے بغیر اس کو کسی اور گاڑی میں لے جانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، ہاں پسینجر کی رضامند ی سے کسی اور گاڑی والے سے کم کرایہ میں بات کرسکتا ہے ۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 208):
’’وللأجير أن يعمل بنفسه وأجرائه إذا لم يشترط عليه في العقد أن يعمل بيده؛ لأن العقد وقع على العمل، والإنسان قد يعمل بنفسه وقد يعمل بغيره؛ ولأن عمل أجرائه يقع له فيصير كأنه عمل بنفسه، إلا إذا شرط عليه عمله بنفسه؛ لأن العقد وقع على عمل من شخص معين، والتعيين مفيد؛ لأن العمال متفاوتون في العمل فيتعين فلايجوز تسليمها من شخص آخر من غير رضا المستأجر، كمن استأجر جملا بعينه للحمل لا يجبر على أخذ غيره، ولو استأجر على الحمل ولم يعين جملا كان للمكاري أن يسلم إليه أي جمل شاء، كذا ههنا‘‘.
العناية شرح الهداية (9/ 78):
’’قال: (وإذا شرط على الصانع أن يعمل بنفسه إلخ) وإذا شرط على الصانع أن يعمل بنفسه نقل عن حميد الدين الضرير - رحمه الله - هو مثل أن يقول أن تعمل بنفسك أو بيدك مثلا، وإليه أشار المصنف - رحمه الله - بقوله أن يعمل بنفسه، فليس له أن يستعمل غيره لأن المعقود عليه العمل من محل بعينه فيستحق عينه كالمنفعة في محل بعينه، كأن استأجر دابة بعينها للحمل فإنه ليس للمؤجر أن يسلم غيرها، وفيه تأمل لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه في ذلك الفن أو سلم دابة أقوى من ذلك كان ينبغي أن يجوز، وإن أطلق العمل له فله أن يستأجر من يعمله لأن المستحق العمل ويمكن إيفاؤه بنفسه، وبالاستعانة بغيره بمنزلة إيفاء الدين، والله أعلم‘‘. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200615
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن