زید نے احمد کو کچھ رقم دی زکاۃ،خیرات وغیرہ کی کہ کسی نیک کام میں یا کسی ضرورت مند کو دے دینا۔ احمد شرعی مستحق زکاۃ تھا، احمد کو کوئی ضرورت پیش آئی، اس نے وہ رقم اپنے استعمال میں لے لی، مثلاً بیوی بچوں پر خرچ کردی۔ ایسا کرنا ٹھیک ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر زید (موکل) نے احمد(وکیل) کو زکاۃ کی رقم دیتے ہوئے یہ کہا ہو کہ جہاں چاہیں خرچ کر دیں تو ایسی صورت میں اگر احمد(وکیل) زکاۃ کا مستحق ہو تو خود بھی زکاۃ کی رقم استعمال کر سکتا تھا اور بیوی بچوں پر بھی اسے خرچ کر سکتا تھا۔ بصورتِ دیگر خود استعمال نہیں کرسکتا تھا اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کر نے کے لیے بھی ان کو اس رقم کا مالک بنانے کے بعد ان کے لیے خرچ کر سکتا تھا، اگر ان کو مالک بنائے بغیر ان پر خرچ کیا ہو تو ایسا کرنا درست نہیں تھا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269):
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت".
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1 / 305):
"وفي الجامع فرق بين الوضع وبين الدفع والصرف والفرق أن الدفع والصرف للتمليك كالإعطاء والإيتاء والواحد لايكون مملكًا ومتملكًا في غير الأب والجد والوصي عنده". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104200655
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن