بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کے وکیل کا زکاۃ کی رقم استعمال کرنا


سوال

زید نے احمد کو کچھ رقم دی زکاۃ،خیرات وغیرہ  کی کہ کسی نیک کام میں یا کسی ضرورت مند کو دے دینا۔ احمد شرعی مستحق زکاۃ  تھا، احمد کو کوئی ضرورت پیش آئی، اس نے وہ رقم اپنے استعمال میں لے لی،  مثلاً بیوی بچوں پر خرچ کردی۔ ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زید (موکل) نے احمد(وکیل) کو زکاۃ کی رقم دیتے ہوئے یہ کہا ہو کہ جہاں چاہیں خرچ کر دیں تو ایسی صورت میں اگر احمد(وکیل) زکاۃ کا مستحق ہو تو خود بھی زکاۃ کی رقم استعمال کر سکتا تھا اور بیوی بچوں پر بھی اسے خرچ کر سکتا تھا۔ بصورتِ دیگر خود استعمال نہیں کرسکتا تھا اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کر نے کے لیے بھی ان کو اس رقم کا مالک بنانے کے بعد ان کے لیے خرچ کر سکتا تھا، اگر ان کو مالک بنائے بغیر ان پر خرچ کیا ہو تو ایسا کرنا درست نہیں تھا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269):
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت". 

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1 / 305):
"وفي الجامع فرق بين الوضع وبين الدفع والصرف والفرق أن الدفع والصرف للتمليك كالإعطاء والإيتاء والواحد لايكون مملكًا ومتملكًا في غير الأب والجد والوصي عنده". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں