بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کے متفرق مسائل


سوال

1. میں بینک میں ملازمت کرتا تھا جب بینک چھوڑا تو پرا ویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی ملی تو کیا اس پر زکاۃ ہو گی؟

2. اگر کسی کے گھر ٹی وی اور موبائل ہے تو کیا اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں؟

3. اگر میں یکم رمضان کو زکاۃ کا حساب کرتا ہوں اور 30 شعبان کو مجھے تنخواہ ملی تو کیا اس تنخواہ پر بھی زکاۃ دینی ہو گی؟

4. میں اپنے بہنوئی کو زکاۃ دیتا ہوں تو ان کے گھر جا کر کھانے میں کوئی مسئلہ تو نہیں؟

جواب

  1. بینک میں ملازمت کرنا نا جائز ہے اور اس سے ملنے والی رقم  وصول کرنا  اور اس کو استعمال کرنا  سب   نا جائز ہے،  لہذا  آپ کو جو رقم بینک سے ملی ہے وہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے، اور مالِ حرام پر زکاۃ نہیں ہوتی، بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو دینا ضروری ہے۔ لہٰذا  آپ بینک سے ملی ہوئی تمام رقم ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو صدقہ کر دیں۔ اگر یک مشت تمام رقم صدقہ نہیں کرسکتے تو  بینک سے حاصل شدہ رقم کا حساب رکھیں اور جتنا جلد ہوسکے حلال ذریعہ آمدن تلاش کرکے مذکورہ تمام رقم بلانیتِ ثواب صدقہ کریں، اس دوران استغفار بھی جاری رکھیں۔'والسبيل في الكسب الخبيث التصدق'۔ (المبسوط للسرخسی، کتاب البیوع، السلم في المسابق والفرا (12/172) ط: دار المعرفۃ
  2. ٹی وی اور اس طرح کی چیزیں جو ضروریات سے زائد ہوں، اگر ان کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو جس شخص کی ملکیت میں ہوں انہیں  زکاۃ دینا جائز نہیں ہے ، اور اگراس سے کم ہوتواس شخص کو زکاۃ دیناجائز ہے ۔ 
  3. اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں اور آپ کے مال پر ایک سال بھی گزر چکا ہے تو جو رقم آپ کو 30 شعبان کو ملی ہے وہ بھی زکاۃ میں شامل ہو گی اور اس کی زکاۃ بھی آپ پر لازم ہو گی، بشرطیکہ تنخواہ جائز ذریعہ آمدن کی ہو۔
  4. آپ اپنے بہنوئی کے گھر جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں