بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم حیلہ سے لینا


سوال

 ایک شخص ایک ادارے میں ملازم ہے، اسے ادارے  کی طرف سے زکاۃ کا مال آسانی سے مل سکتا ہے، بلکہ ادارے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ  کی تنخواہ نہیں بڑھائیں گے اگر آپ کو  زکاۃ کا مال لینا ہے تو لے لو،  لیکن یہ شخص زکاۃ کا مستحق نہیں ہے، اس کے لیے یہ شخص ایک حیلہ اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنے ایک مستحقِ زکاۃ دوست کی طرف سے وکیل بن جائے گا اور پھر اس کا یہ دوست اس کو یہ کہے گا کہ آپ ان اشیاء پر میری طرف سے قبضہ کر لو اور پھر ان اشیاء کو اپنے لیے استعمال کرو ۔

لوگ اس ادارے کو  زکاۃ کا مال دیتے ہیں مستحقین کے  لیے۔  نیز ادارے  کو مکمل اختیارات حاصل ہیں، بلکہ مستحق افراد پہلے ایک فارم بھرتے ہیں اور پھر ان کو وقتاً فوقتاً  راشن وغیرہ ملتا رہتا ہے۔ اور اس ملازم سے بھی کہا گیا ہے کہ آپ اگر خود مستحق ہیں تو خود لے لیں، ورنہ تو اپنے کسی مستحق رشتہ دار کے  لیے لے جائیں۔ اس لیے یہ ملازم اس میں حیلہ کر کے اپنے  لیے لینا چاہتا ہے۔

جواب

مذکورہ شخص چوں کہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے؛ لہٰذا اس کے لیے حیلے سے زکاۃ لینا اور ادارے کا دینا ناجائز ہے۔

المبسوط للسرخسي (30 / 210):

"فالحاصل: أن ما يتخلص به الرجل من الحرام أو يتوصل به إلى الحلال من الحيل فهو حسن، وإنما يكره ذلك أن يحتال في حق لرجل حتى يبطله أو في باطل حتى يموهه أو في حق حتى يدخل فيه شبهة فما كان على هذا السبيل فهو مكروه، وما كان على السبيل الذي قلنا أولا فلا بأس به؛ لأن الله - تعالى - قال {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2] ففي النوع الأول معنى التعاون على البر والتقوى، وفي النوع الثاني معنى التعاون على الإثم والعدوان". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں