بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کون سے مال پر لازم ہوتی ہے؟


سوال

 ایک رقم  مال کی صورت میں  ہے،  ایک رقم  لوگوں سے لینی ہے ادھار میں  مال بیچنے کی وجہ سے اور ایک نقد کی صورت میں ہے، زکات کس پر نکلے گی؟

جواب

واضح رہے کہ چار قسم کے اموال پر سال گزرنے کے بعد زکات فرض ہوتی ہے بشرطیکہ وہ نصابِ زکات  کے برابر ہوں :

۱:نقدی (کیش)۲:مال ِتجارت ،اگرچہ جائیداد ہی کیوں نہ ہو۔۳:سونا  ۴:چاندی.

نیز  قرض کی  رقم جو  ملنے والی ہے ،اُس کی زکات بھی ادا کرنا لازم ہے  بشرطیکہ زکات کا نصاب مکمل ہو، البتہ اس رقم میں اختیار ہوتا ہے کہ فی الفور زکات ادا کریں یا  بعد میں جب رقم وصول ہوجائے تو  سابقہ حساب کر کے زکات ادا کریں؛  لہذا  صورتِ مسئولہ میں   سائل کے ضروری اخراجات اور سائل پر واجب الادا قرض منہا کرنے کے بعد اگر نقد رقم، لوگوں کے ذمے ادھار رقم اور مالِ تجارت سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو  تو زکات کا سال پورا ہونے پر مجموعی مالیت کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرنا واجب ہوگا۔

و في بدائع الصنائع للکاساني:

"أما الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة أما قدر النصاب فيهما فالأمر لا يخلو إما أن يكون له فضة مفردة أو ذهب مفرد أو اجتمع له الصنفان جميعا، فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنا وزن سبعة فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم ... وأما صفة هذا النصاب فنقول: لا يعتبر في هذا النصاب صفة زائدة على كونه فضة فتجب الزكاة فيها سواء كانت دراهم مضروبة، أو نقرة، أو تبرا، أو حليا مصوغا، أو حلية سيف، أو منطقة أو لجام أو سرج أو الكواكب في المصاحف والأواني، وغيرها إذا كانت تخلص عند الإذابة إذا بلغت مائتي درهم، وسواء كان يمسكها للتجارة، أو للنفقة، أو للتجمل، أو لم ينو شيئًا."

(كتاب الزكوة ،فصل الاثمان المطلقة وهي الذهب والفضة ،ج:۲،ص:۱۷،ط:دار الکتب العلمیۃ )

       فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".

 (2/ 305،  کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں