بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ، صدقہ، فطرہ، فدیہ اور خیرات کا مصرف


سوال

جس کے والدین ضعیف ہوں اور بیمار ہوں اور روزہ رکھنے پر قدرت نہ ہو ، ان کا فدیہ کن کو دے سکتے ہیں؟ فدیہ دینا کب واجب ہوتا ہے؟ نیز زکاۃ، فدیہ، صدقہ، فطرہ اور خیرات کس کو دے سکتے ہیں؟ الگ الگ بتائیے گا۔

جواب

اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہی نہ ہو  یا روزہ رکھنے سے اُس کی بیماری بڑھ جانے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسے مریض کے لیے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، پھر اگر وہ بیماری ایسی ہو کہ اس بیماری کے زائل ہونے کی امید ہی نہ ہو (یا اتنا بوڑھا ہوچکا ہو کہ روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ ہو) تو ایسی صورت میں ایسے مریض پر روزوں کے بدلے اس کا فدیہ دینا واجب ہوتا ہے۔ 

1۔زکاۃ ہر ایسے آدمی کو دی جا سکتی ہے جس کی ملکیت میں اس کی ضروریاتِ اصلیہ سے زائد نصاب کے برابر سونا، چاندی، مالِ تجارت ، کیش یا کوئی سامان نہ ہو، جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد اتنا سامان یا مال موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو وہ شرعاً مال دار ہے، اور مال دار کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔

نصاب سے مراد یہ ہے کہ اگر اس کے پاس سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ کے مالک ہونے سے وہ صاحبِ نصاب بن جائے گا،اگر   اس کے پاس چاندی ہے تو ساڑھے باون تولہ چاندی کا مالک ہونے سے وہ صاحبِ نصاب بن جائے گا  ، کیش اور مالِ تجارت کا نصاب بھی آج کل چاندی کے حساب سے ہی لگایا جائے گا، اور اگر ان میں سے دو یا زائد جنسوں کا مالک ہواور  اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچ جائے  تو نصاب کا مالک شمار ہو گا۔

اور ضروریاتِ اصلیہ میں رہنے کا مکان، استعمال کے برتن، کپڑے فریج، واشنگ مشین، سلائی مشین، فرنیچر، ٹیلی فون اور موبائل فون سب شامل ہیں یعنی یہ اشیاء ضرورت کی ہیں اس کو ضرورت سے زائد شمار نہیں کیا جائے گا۔

2۔3۔ روزے کا فدیہ اور صدقۃ الفطر بھی صرف اسی آدمی کو دیا جا سکتا ہے جو زکاۃ کا مستحق ہو یعنی زکاۃ، فدیہ اور فطرہ کا مستحق ایک ہی ہے۔

4۔ نفلی صدقہ کے لیے کوئی شرط نہیں ہے، مال دار کو بھی دیا جا سکتا ہے۔

5۔ خیرات سے مراد اگر نفلی صدقات ہیں تو اس کا حکم گزشتہ سطور میں آ گیا۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):
"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه".

الفتاوى الهندية (1/ 189):
"ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں