بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ ادا کرنے سے پہلے اضافہ شدہ مال میں زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے مضاربت پر رقم انویسٹ کی ہے۔اس کی زکوت میں رجب میں ادا کرتا ہوں ۔پھر میں نے ایک پلاٹ بیچا رجب سے پہلے۔کیا پلاٹ والی رقم بھی کاروبار والی رقم کے ساتھ شامل کی جائے گی یا اس کا علیحدہ حکم ہے؟ 

جواب

واضح رہےقمری مہینے کی جس تاریخ کو کوئی شخص نصاب کا مالک بناہو  اب آئندہ وہی تاریخ زکات  کے لیے متعین رہے گی، اسی تاریخ کے حساب سے سال گزرنے پر (اس دن) آدمی کی ملکیت میں جتنی رقم ہوگی اس پرزکات واجب ہوگی، سال کے درمیان یاسال گزرنے سے پہلے ملنے والی رقم پرالگ سے سال کا گزرنا لازم نہیں ہے،  جیساکہ درمیان سال میں ہر رقم کی آمد و خرچ کا حساب رکھنا ضروری نہیں؛ لہٰذا اگر سال مکمل ہونے سے پہلے بنیادی ضرورت سے زائد  مزید رقم آدمی کے پاس آجائے اور سال پورا ہونے کی دن ملکیت میں موجود ہو تو وہ بھی زکات  کے حساب میں شامل ہوگی اور مجموعی مالیت کی زکات ادا کرنا ہوگی۔

بصورت ِ  مسئولہ اگر آپ کاسال  رجب میں پورا ہوتاہے اور آپ  زکات ادا کرتے  ہیں  تو مذکورہ پلاٹ  کےفروخت کرنےسےحاصل ہونے والی رقم   کی  بھی زکات  نکالنا لازم ہوگی ؛ لہٰذا  زکات سال پورا ہونے پر جتنی رقم موجود ہوگی،  واجب الادا  رقم منہا کرنے کے بعداس کا ڈھائی فیصد بطورِ  زکات ادا کرنا واجب ہوگا، اور اگر اس رقم میں سے کچھ رقم سال پورا ہونے سے پہلے خرچ ہوجائے تو اس کی زکات واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و من كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالًا من جنسه ضمّه إلی ماله و زکّاه سواء  کان المستفاد من نمائه أولا و بأي وجه استفاد ضمّه سواء كان بمیراث أو هبة أو غیر ذلك."

(كتاب الزكوة، الباب الاول، ج:1،  ص:175، ط: مکتبه حقانیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109203161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں