بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوة کی رقم سے اساتذہ کو تنخواہ دینا


سوال

 میں نےاپنی بیٹھک میں مدرسہ کی بنیاد رکھی اوربچوں پردرمیانی فیس 80 روپے  رکھی جو میں لیتا تھا پھراللہﷻ نےمدرسہ کوترقی دی تو والدمحترم نےگھر کی چھت پر اپنی ذاتی رقم سے تین چار کمرےتعمیرکیےاوراساتذہ لگادیے،  پھرمیں ان فیسوں کی رقم سے ان اساتذہ کو تنخواہ دیتاتھا  اور میں نے مدرسہ  کے لیے اپنی زمین وقف کی ہے جوکہ زیر تعمیر ہے ایک چھت تعمیر ہوچکی ہے،  مدرسہ کے  لیے الگ فنڈصدقہ زکوة وغیرہ جمع کرنا شروع کیا ہے جوکہ صرف مدرسہ کی ضروریات اورمدرسہ کی تعمیروغیرہ پرخرچ کرتےہیں ،  مدرسہ اب بھی  ہمارے ذاتی گھر میں  ہے جوکہ  7، 8  کمروں پر مشتمل  ہے، اور بجلی، پانی وغیرہ یہ سب گھرسےلگی ہوئی  ہے اوربل بھی  ہم گھرسےاداکرتےہیں۔ اب الحمدللہ مدرسہ میں 8،9  اساتذہ ہیں ان کو ہم تنخواہ فیس کی رقم سےاداکرتےہیں اور کتب کےاساتذہ کومدرسہ کےفنڈ کی رقم سےتنخواہ اداکرتےہیں اورمیں خودمدرسہ میں پڑھاتا ہوں اوراساتذہ سےزیادہ وقت مدرسہ کودیتاہوں اورخادمی کاکام بھی سرانجام دیتا ہوں، اللہﷻکےفضل وکرم سے۔

پوچھنا یہ ہے کہ فیسوں سےجورقم بقایا رہ  جاتی ہے  وہ  ہمارے لیے لیناجائز ہے یا ناجائز ہے؟ پرائیویٹ سکولوں پرقیاس کیاجاسکتاہے  یانہیں؟ شرعی حل کا طلب گار ہوں، اللہﷻ آپ کوجزائے خیردے!

نیز مدرسہ کا جنریٹر وہ جب  ہم استعمال کرتےہیں تو لائن گھرسے ہے، اس کی بجلی گھرمیں آجاتی  ہے، آیا  یہ جائز ہے یا نہیں؟اورکبھی کبھی جنریٹر  گھرکے  لیے بھی استعمال کیاجاتاہے،  لیکن تیل گھروالےلاتےہیں،  اکثرتیل زیادہ لاتےہیں اوران کےاستعمال سےبھی مدرسہ کوبجلی میسرہوتی  ہے اوراستعمال کرتےہیں  ہم مدرسہ میں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں زکوة اور صدقاتِ  واجبہ  (فطرہ، فدیہ، کفارہ اور نذر) سے مدرسہ  کی تعمیرات کرنا، اساتذہ  کی تنخواہیں  دینا اور ایسے اخراجات جن میں مستحقِ زکات کو مالک بنانا نہ پایا جائے، جائز نہیں ہے۔  زکوة اور صدقات واجبہ مستحقینِ زکات کو مالک بناکر دینا ضروری ہے،  خواہ مستحق طلبہ ہوں یا کوئی  اور۔

جنریٹر اگر صرف  مدرسہ کے  لیے وقف کیا گیا تھا تو مدرسہ کے علاوہ اس کا استعمال درست نہیں۔

فیس  اور عطیات اور نفلی صدقات کی مد سے حاصل شدہ آمدن خود استعمال کرنا  درست ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200509

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں