بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کے متعلق چند سوالات


سوال

1۔ کن صورتوں میں زکاۃ فرض ہوتی ہے؟ کیا زکاۃ موجودہ اثاثہ جات پر سال گزرجانے کے بعد فرض ہوگی؟

2۔ کیا زکاۃ کی ادائیگی وہ شخص کرے گا جس کے پاس اثاثے موجود ہوں یا اگر وہ جوائنٹ فیملی میں رہ رہا ہو تو  گھر کا سربراہ والد یا سر پرست کرے گا؟

3۔ کیا شریعتِ مطہرہ نے زکاۃ کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص تاریخ یا مہینہ مقرر کیا ہے؟ جیسا کہ بینک میں یکم رمضان کو زکاۃ کی رقم کا ٹ لی جاتی ہے۔

جواب

1۔  جس مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا سامانِ تجارت یا نقدی موجود ہو  یا مذکورہ اموال میں سے کوئی دو یا زائد اموال موجود ہوں جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس سے زیادہ ہو، اور اس پر سال گزر جائے تو اس شخص پر زکات واجب ہوجاتی ہے۔

2۔  زکات اس شخص پر واجب ہے جو  نصاب کا مالک ہو، شریعت نے ہر شخص کی جدا ملکیت کا اعتبار کیا ہے، لہٰذا ہر شخص اپنے مال کی زکات کا خود ذمہ دار ہے، لیکن اگر گھر کا سربراہ یا سر پرست  مالک کی اجازت سے اس کی زکات ادا کرے تو اس کی بھی اجازت ہے، تاہم اس پر واجب نہیں۔

3۔ شریعت نے تمام لوگوں کی زکات کی ادائیگی کے لیے ایک خاص دن یا مہینہ مقرر نہیں کیا کہ جس دن سب مل کر زکات ادا کریں، بلکہ جس دن مالِ زکات پر سال مکمل ہوجائے، اس دن  اس کی  زکات ادا کرنا واجب ہے، یہ تاریخ اور مہینہ ہر شخص کے لحاظ سے مختلف ہوسکتاہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں