بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ قیمت فروخت یعنی مارکیٹ ریٹ پر ہے


سوال

فتوی نمبر 143906200058میں آپ نے صرف یوم الادا اور یوم الوجوب کا حوالہ دیا ہے نہ کہ قیمت فروخت پر واجب ہونے کا۔ براہ کرم زکاۃ قیمت فروخت پر واجب ہے اس کاجواب حوالہ کے ساتھ مرحمت فر ما کر ممنون فرماویں!

جواب

’’سامانِ تجارت کی زکاۃ اس سامان کی قیمتِ فروخت کے حساب واجب ہوگی‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سامان کی موجودہ بازاری قیمت پر زکاۃ واجب ہوگی، یعنی اس بات میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ  جتنے پیسوں کا یہ سامان خریدا تھا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ سال پورا ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ اب یہ چیز مارکیٹ میں کتنے کی فروخت ہوتی ہے، پس اسی قیمت پر زکاۃ واجب ہوگی۔

البتہ اس بات میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین رحمہا اللہ کا اختلاف ہے کہ جس دن زکاۃ واجب ہوئی ہے اس دن کی قیمت فروخت (مارکیٹ ریٹ ) کا اعتبار ہوگا یا جس دن زکاۃ ادا کی جائے گی اس دن کے مارکیٹ ریٹ (قیمت فروخت ) کا اعتبار ہوگا، راجح قول صاحبین کا ہے کہ یوم الادا کی قیمت فروخت (مارکیٹ ریٹ) کا اعتبار ہوگا۔لہٰذا یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حوالہ میں یوم الادا  کی قیمت اور یوم الوجوب کی قیمت کا جو ذکر ہے اس سے مراد قیمتِ فروخت یعنی مارکیٹ ریٹ ہی ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 179)

'' إذا كان له مائتا قفيز حنطة للتجارة تساوي مائتي درهم  الحول ثم زاد السعر أو انتقص فإن أدى من عينها أدى خمسة أقفزة، وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب؛ لأن الواجب أحدهما ولهذا يجبر المصدق على قبوله وعندهما يوم الأداء''.

 الفتاوی التاتارخانیة  (۲/۲۰، کتاب الزکاة ، بیان زکاة عروض التجارة)

'' رجل له مائتا قفیز حنطة للتجارة حال علیها الحول وقیمتها مائتا درهم حتی وجبت علیها الزکاة ، فإن أدی من عینها أدی ربع عشر عینها خمسة أقفزة حنطة ، وإن أدی من قیمتها ربع عشر القیمة أدی خمسة دراهم ، فإن لم یؤد حتی تغیر سعر الحنطة إلی زیادة وصارت تساوی أربع مائة ، فإن أدی من عین الحنطة أدی ربع العشر خمسة أقفزة بالإتفاق ، وإن أدی من القیمة أدی خمسة دراهم قیمتها یوم حولان الحول الذی هو یوم الوجوب عند أبی حنیفة'' ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 286)

'' وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں