بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات فارم کے ذریعے علاج کس کے لیے جائز ہے؟


سوال

میری مہینے کی آ مدن تقریباً پچیس ہزار تک ہے، گھر میں دو جانور بھی ہیں، والدہ کے نام دو کنال زمین بھی ہے، میں نے اپنے ایک مریض کا سی ٹی سکین زکات فارم کے ذریعے کرایا تھا، اس لیے کہ علاج پر رقم کم نہ ہو جائے،  دل تو  نہیں مان رہا تھا کہ زکات فارم پر ٹیسٹ کراؤں،لیکن میں نے یہ خیال کیا تھا کہ اگر ٹیسٹ رپورٹ نارمل آ ئی اور علاج کی ضرورت نہ پڑی تومیں ٹیسٹ کی رقم ادا کروں گا، کیا یہ صحیح کیا؟ اگر نہیں تو  میں یہ ٹیسٹ کی رقم سات آ ٹھ ہزار کہاں ادا کروں؟ 

جواب

اگر آپ کے پاس بنیادی ضروریات ( یعنی رہنے کا مکان،  استعمال کی گاڑی، گھریلوبرتن، کپڑے وغیرہ)سے زائد نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہیں تو آپ زکات کے مستحق ہیں، اس صورت میں زکات فارم کے ذریعے سی ٹی  اسکین کرانا جائز ہےاور ضرورت کے مطابق زکات  لینا جائز ہے، بصورتِ دیگر اتنی رقم مذکورہ ادارے کے زکات فنڈ میں جمع کرادیجیے یا کسی مستحقِ زکات کو مالک بناکر دیجیے۔

"باب المصرف

أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

(ومسكين من لا شيء له) على المذهب، - لقوله تعالى: {أو مسكيناً ذا متربة} [البلد: ١٦]- وآية السفينة للترحم". (الدر مع الرد: ٢/ ٣٣٩) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں