بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زچہ اور بچہ کو تعویذ پہنانا


سوال

ہمارے علاقے میں ہم بچپن سے دیکھتےچلے آرہے ہیں کہ جب کوئی بچہ یا بچی پیدا ہو تو  اس کے لیے اور  اس کے بچے کے لیے سات سات نیلے دھاگے دم کرواتے ہیں؛  تاکہ بچہ اور ماں ان چالیس دونوں میں آفات سے محفوظ رہے، اور علاقے کی مسجد کے امام اور دوسرے دم کرنے والے تبلیغی حضرات بھی یہ دھاگے دم کر کے دیتے ہیں۔ اور میرے پاس بھی کافی مرتبہ دم کرنے کے لیے دھاگے لاۓ گئے ہیں۔اس کے بارے میں کوئی مستند بات تعویذ اور عملیات میں کوئی مستند عمل ہے  کہ نہیں؟ یہ عمل کوئی شرعی عمل ہے یا غیر شرعی؟ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ ان چالیس دنوں میں ماں اور بچے کو بخار سے بچانے کے لیے بھی بہت مفید ہے۔

جواب

تعویذ کے شرعاً جائز ہونے کی تین شرائط ہیں:

1۔ کسی جائز مقصد کے لیے ہو، ناجائز مقصد کے لیے نہ ہو۔

2۔ اس کو مؤثر بالذات نہیں سمجھا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی مؤثر حقیقی سمجھا جائے۔

3۔ وہ تعویذ قرآن و حدیث یا اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل ہو، یا عربی یا کسی اور زبان کے ایسے الفاظ پر مشتمل ہو جن میں کفر و شرک یا گناہ کی بات نہ ہو اور ان کا مفہوم بھی معلوم ہو۔

اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو پھرایسی  تعویذ کسی کو دینا اور پہننا یا پہنانا سب شرعاً ناجائز ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (4 / 1715):

"(وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده - رضي الله عنهم - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا فزع أحدكم في النوم فليقل: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون فإنها لن تضره. وكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده، ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه») . رواه أبو داود والترمذي وهذا لفظه". و في الشرح: " (وكان عبد الله بن عمرو) بالواو (يعلمها) أي: الكلمات (من بلغ من ولده) أي: ليتعوذ به (ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك) أي: كتاب على ما في النهاية والقاموس، وأغرب ابن حجر لغةً وعرفاً في تفسير الصك بكتف من عظم (ثم علقها) أي: علق كتابها الذي هي فيه (في عنقه) أي: في رقبة ولده، وهذا أصل في تعليق التعويذات التي فيها أسماء الله تعالى".  

مزید تفصیل کے لیے دیے گئے لنک سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:

 

کیا تعویذ پہننا جائز ہے؟

پس صورتِ مسئولہ میں مخلتف رنگوں کے دھاگوں، پر دم کروا کر انہیں مؤثر و حفاظت کرنے والا اگر نہ سمجھا جاتا ہو، بلکہ  مؤثر حقیقی اللہ رب العزت کو ہی سمجھا جاتا ہو، تو ایسی صورت میں دھاگا یا ڈوری درج بالا شرائط کی پاس داری کے ساتھ دم کرکے  دینے اور  پہنانے کی اجازت ہوگی، نیز  مختلف رنگوں کے دھاگوں پر ہی دم کرنے کا التزام درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں